ہم سفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے
اک پل کا قصہ بھی اک صدی سا لگتا ہے
وہ جو اک رفاقت تھی اب کہاں رہی باقی
عمر بھر کا رشتہ بھی دو گھڑی سا لگتا ہے
جیسے اک تھکن کوئی جسم و جاں میں اتری ہے
کیسا یہ اندھیرا سا چھا گیا ہے آنکھوں پر
روشنی کا ہر رستہ تیرگی سا لگتا ہے
خود کو میں نے پایا ہے اپنے آپ کو کھو کر
بے خودی کا ہر لمحہ آگہی سا لگتا ہے
بس اسی میں جی جائیں اور اسی میں مر جائیں
موت کا نظارہ بھی زندگی سا لگتا ہے
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment