Sunday 30 August 2020

ہمسفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے

ہم سفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے
اک پل کا قصہ بھی اک صدی سا لگتا ہے
وہ جو اک رفاقت تھی اب کہاں رہی باقی
عمر بھر کا رشتہ بھی دو گھڑی سا لگتا ہے
جیسے اک تھکن کوئی جسم و جاں میں اتری ہے
قربتوں کا اک اک پل تشنگی سا لگتا ہے
کیسا یہ اندھیرا سا چھا گیا ہے آنکھوں پر
روشنی کا ہر رستہ تیرگی سا لگتا ہے
خود کو میں نے پایا ہے اپنے آپ کو کھو کر
بے خودی کا ہر لمحہ آگہی سا لگتا ہے
بس اسی میں جی جائیں اور اسی میں مر جائیں
موت کا نظارہ بھی زندگی سا لگتا ہے

نزہت عباسی

No comments:

Post a Comment