گئے جون کی باتیں
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
درد اترا آنکھ میں زِینہ بہ زِینہ جون کا
آپ کے ماتھے پہ شکنیں اور آنکھوں میں نمی
آ گیا ہے آپ کو گویا قرِینہ جون کا
کھوجتے ہیں آپ کی زلفوں کی مہکاروں کو ہم
ہائے وہ رُوئے درخشاں پر پسینہ جون کا
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
درد کے لمحوں کی حِدت سے مرجھائے ہوئے
آرزو کے پھول دامن میں ہیں کملائے ہوئے
اس طرح جیون کا جینا بھی ہے جینا جون کا
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
دُور ہم سے جا کے اس کو ایک دن بسنا ہی تھا
انتہاۓ درد نے گفتار کو ڈسنا ہی تھا
دوستو! اب زہر کی مانند پِینا جون کا
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
آنکھ کو وہ آنسوؤں کے کتنے ساگر دے گیا
نیند میری لے گیا، سُکھ چین میرا لے گیا
یاد کی صورت ہے باقی اب دفینہ جون کا
دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment