کسی دن میرے گھر وہ مہرباں آیا تو کیا ہو گا
مِرے آنگن میں جنت کا سماں آیا تو کیا ہو گا
نہ اتنا ناز کر اے راہبرِ! منزل شناسی پر
بھٹکنے کی جو ضد پر کارواں آیا تو کیا ہو گا
حریمِ ناز میں جاتے ہوئے اک فکر ہے مجھ کو
لپکتی ہے تجلی روح میں جس کے تصور سے
نظر کے سامنے وہ آستاں آیا تو کیا ہو گا
مِرے احباب سُوکھی کھیتیوں پر شعر کہتے ہیں
اگر موضوع رخسارِ بُتاں آیا تو کیا ہو گا
بھری برسات، کچا گھر، نہ شیشہ ہے نہ پیمانہ
علیم ایسے میں وہ میرے یہاں آیا تو کیا ہو گا
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment