وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا
نظر، نظر کی یقیں پسندی پہ خوش تھی لیکن
بدن، بدن کی گماں رسانی سے ڈر رہا تھا
سبھی کو نیند آ چکی تھی یوں تو پری سے مل کر
لرزتے ہونٹوں سے گر پڑے تھے حروف اک دن
دل اپنے جذبوں کی ترجمانی سے ڈر رہا تھا
لغاتِ جاں سے کشید کرتے ہوۓ سخن کو
میں ایک حرفِ غلط معانی سے ڈر رہا تھا
جما ہوا خون ہے رگوں میں نہ جانے کب سے
رکا ہوا خواب ہے، روانی سے ڈر رہا تھا
وہ بے نشاں ہے جسے نشاں کی ہوس تھی آزر
وہ رائیگاں ہے جو رائیگانی سے ڈر رہا تھا
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment