Monday 31 August 2020

وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا

وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا
نظر، نظر کی یقیں پسندی پہ خوش تھی لیکن
بدن، بدن کی گماں رسانی سے ڈر رہا تھا
سبھی کو نیند آ چکی تھی یوں تو پری سے مل کر
مگر وہ اک طفل جو کہانی سے ڈر رہا تھا
لرزتے ہونٹوں سے گر پڑے تھے حروف اک دن
دل اپنے جذبوں کی ترجمانی سے ڈر رہا تھا
لغاتِ جاں سے کشید کرتے ہوۓ سخن کو
میں ایک حرفِ غلط معانی سے ڈر رہا تھا
جما ہوا خون ہے رگوں میں نہ جانے کب سے
رکا ہوا خواب ہے، روانی سے ڈر رہا تھا
وہ بے نشاں ہے جسے نشاں کی ہوس تھی آزر
وہ رائیگاں ہے جو رائیگانی سے ڈر رہا تھا

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment