Monday, 31 August 2020

آپ کے وعدہ فردا کو دعا دیتے ہیں

آپ کے وعدۂ فردا  کو دعا دیتے ہیں
اور ہم شام کو اک شمع جلا دیتے ہیں
ہم تو ظاہر ہے ہمیشہ سے رہے ہیں سادہ مزاج
دل میں جو بات بھی ہوتی ہے بتا دیتے ہیں
اپنے قاتل کا جہاں نام بتانے میں چلا
لوگ چپکے سے مِرا پاؤں دبا دیتے ہیں
شیخ کا ربط بہت بڑھ گیا مسجد سے، مگر
اب بھی بت خانے کی زنجیر ہلا دیتے ہیں
ہم کوئی شاہ جہانوں میں نہیں ہیں لیکن
پیار کا تاج محل ہم بھی بنا دیتے ہیں
تشنہ کامی میں ہمیں رہتا ہے پیاسوں کا خیال
شیخ کے نام کی تھوڑی سے گرا دیتے ہیں
اس کی توصیفِ جوانی میں غزل پڑھ کے علیم
آج بھی بزم میں ہم حشر اٹھا دیتے ہیں

علیم عثمانی

No comments:

Post a Comment