آپ کے وعدۂ فردا کو دعا دیتے ہیں
اور ہم شام کو اک شمع جلا دیتے ہیں
ہم تو ظاہر ہے ہمیشہ سے رہے ہیں سادہ مزاج
دل میں جو بات بھی ہوتی ہے بتا دیتے ہیں
اپنے قاتل کا جہاں نام بتانے میں چلا
شیخ کا ربط بہت بڑھ گیا مسجد سے، مگر
اب بھی بت خانے کی زنجیر ہلا دیتے ہیں
ہم کوئی شاہ جہانوں میں نہیں ہیں لیکن
پیار کا تاج محل ہم بھی بنا دیتے ہیں
تشنہ کامی میں ہمیں رہتا ہے پیاسوں کا خیال
شیخ کے نام کی تھوڑی سے گرا دیتے ہیں
اس کی توصیفِ جوانی میں غزل پڑھ کے علیم
آج بھی بزم میں ہم حشر اٹھا دیتے ہیں
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment