سُوۓ دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا
سوئیاں سی کچھ دلِ وحشی میں پھر چبھنے لگیں
ٹھیک ہونے کو لباسِ ارغوانی پھر گیا
سرفروشانِ محبت سے نہ ہو گی آنکھ چار
بوسہ کیسا، اک لبِ شیریں سے گالی بھی نہ دی
آج پھر امیدوارِ مہربانی پھر گیا
گر پڑے آنسو عروجِ ماہِ کامل دیکھ کر
مِری نظروں میں تِرا عہدِ جوانی پھر گیا
تعشق لکھنوی
No comments:
Post a Comment