Sunday, 30 August 2020

چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے

چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے
دِیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
ہوس سے کام چلاتے ہیں یعنی ہر دو فریق
کریں بھی کیا کہ محبت تو خام ہو چکی ہے
گزر چکی ہے اذیت سے چشمِ خواب آثار
سکوتِ شب سے نظر ہم کلام ہو چکی ہے
جھکاۓ رکھیں گے ہم یوں ہی اپنی گردن کو
وہ تیغِ تیز اگر بے نیام ہو چکی ہے
نفس نفس ہے سبک رو قدم قدم ہے مثال
حیاتِ دہر بہت تیز گام ہو چکی ہے
پیمبروں کے تسلسل کے بعد آخرِ کار
زمیں پہ فقر کی دولت بھی عام ہو چکی ہے
تو کون رستے سے پہنچیں گے منزلِ جاں تک
یہ رہگزر بھی اگر اختتام ہو چکی ہے
ہمارے خواب ہوا میں اڑائے جائیں گے
ہماری نیند پرندوں کے نام ہو چکی ہے
وہ داستاں جو تہِ خاک و خوں لکھی گئی تھی
شروع ہونے سے قبل اختتام ہو چکی ہے
زمیں پہ حشر بپا ہونے والا ہو جیسے
تمام خلق ہوس کی غلام ہو چکی ہے
بتاؤں کیا کہ مکمل مِری حیات آزر
بغیرِ عشق بہ صد اہتمام ہو چکی ہے

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment