اداس ہوں، دل دُکھا ہوا ہے
یہ دِین فرقوں میں بٹ گیا ہے
دلوں میں چپ چاپ رہ رہا ہے
یہ راز مجھ پر ابھی کھلا ہے
وہ میرے دکھ درد جانتا ہے
گھمنڈ امیری کا پاس رکھو
غریب کا بھی وہی خدا ہے
میں تیرگی سے ڈرا ہوا ہوں
غرورِ شمع بجھا بجھا ہے
کسی کی باتوں میں آ کے بچہ
خدا کو ظالم سمجھ رہا ہے
خدا کے رہنے کی جو جگہ تھی
وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا ہے
خزاں کے آنے کی بات سن کے
شجر بھی حمزہ ڈرا ہوا ہے
حمزہ نقوی
No comments:
Post a Comment