دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی طور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم
راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
دل سمجھتا ہے تِرے ذکر میں لذت کیا ہے
جس میں موتی کی جگہ ہاتھ میں مٹی آئے
اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے
اپنے حالات پہ مائل بہ کرم وہ بھی نہیں
ورنہ اس گردشِ دوراں کی حقیقت کیا ہے
گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر ارادۂ اِظہار، زیرِ لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں
زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اِس لیے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندۂ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گریزاں بھی رہے
اس کا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت
گِرتے گِرتے ایک طُوفانِ قیامت زا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا
محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں، سزا دے اے خدائے عشق! اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے
ہے رات الگ ، صبح کا اخبار الگ ہے
کچھ خون کی سرخی سی چمکتی ہے زمین پر
سَر دھڑ سے الگ، ہاتھ سے تلوار الگ ہے
سنتے تھے بہت شور مسیحائی کا، جس کی
اب وقت پڑا ہے تو وہ بیمار الگ ہے
اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا
ممتازوں نے پیدا ہونا چھوڑ دیا
شاہ جہان سے گزر گئے
اب معیارات بھی زمانے کے بدل گئے
شہنشاہوں کی جگہ جمہوریت نے سہرے باندھ لیے