Sunday 9 September 2012

میرے پاس تھا ہی کیا

میرے پاس تھا ہی کیا؟

بہت خوبصورت جذبے لے کر چلا تھا میں
بڑے معصوم اور سچے تھے
اور میرے پاس تھا ہی کیا
جذبوں کی سچائی کے علاوہ
مگر بازارِ وفا میں
ان کی قدر و قیمت کہاں؟
اور، اب میں
جذبوں کی بوسِیدہ لاش
اپنے کندھوں پر اٹھائے
جھوٹ کی قبر میں دفن کرنے جا رہا ہوں
ریا کاری کی چادر چڑھاؤں گا اس پر
اور پھول نفرتوں کے ڈالوں گا
کہ، جذبوں کا دفن ہو جانا ہی
شاید
میرے حق میں بہتر ہو

ضمیر آفاقی

No comments:

Post a Comment