دلِ تباہ نے اِک تازہ زندگی پائی
تمہیں چراغ مِلا، ہم نے روشنی پائی
ترے خیال سے فُرصت اگر کبھی پائی
بھری بھری سی یہ دُنیا، تہی تہی پائی
سِتم بھی تیرے تغافُل کو سازگار آیا
نِکھر گئے ہیں پسینے بھی بِھیگ کر عارض
گُلوں نے اور بھی شبنم سے تازگی پائی
سحر سے مِل تو گیا سِلسلہ اُجالوں کا
حیات شمع نے کہنے کو عارضی پائی
کبھی جو یاد خراباتِ آرزو آیا
غمِ حیات کی تلخی میں کچھ کمی پائی
درِ حرم سے جو کچھ مِلا، مِلا تاباںؔ
درِ مغاں سے بھی پائی تو تشنگی پائی
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment