Saturday 29 September 2012

جو میں نے چاہا تھا ہو جائے وہ ہوا تو نہیں

جو میں نے چاہا تھا، ہو جائے، وہ ہُوا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جُدا تو نہیں
وہ بے نیاز ہے تم سے تو چھوڑ دو اُس کو
وہ ایک شخص ہے آخر کوئی خُدا تو نہیں
اُسی کی روشنی شامل ہے میرے اشکوں میں
جو دِیپ اُس نے جلایا تھا وہ بُجھا تو نہیں
ابھی ارادہ کیا تھا کہ جاں مہک اُٹھی
ابھی خیال نے میرے اُسے چُھوا تو نہیں
یہ سچ تو ہے کہ نہیں عشق پر مُجھے قابو
گِلہ کیا ہے اگر اُس نے، یہ گِلہ تو نہیں
وہ جس قدر ہے گُریزاں مرے حوالے سے
اُسے بتاؤ کہ میں اِس قدر بُرا تو نہیں

سعد اللہ شاہ  

No comments:

Post a Comment