محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر
محبت نے اسے آغوش میں بھی پا لیا آخر
تصور ہی میں رہتا تھا جو اِک محشر خرام اکثر
جگر ایسا بھی دیکھا ہے کہ ہنگامِ سیہ مستی
نظر سے چُھپ گئے ہیں ساقی و مینا و جام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر
محبت نے اسے آغوش میں بھی پا لیا آخر
تصور ہی میں رہتا تھا جو اِک محشر خرام اکثر
جگر ایسا بھی دیکھا ہے کہ ہنگامِ سیہ مستی
نظر سے چُھپ گئے ہیں ساقی و مینا و جام اکثر
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment