عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے
شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈُوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے! صُبحِ خنداں کے ستارے
کبھی پُوچھا بھی تُو نے، کس کو چاہیں
لیے پِھرتے ہیں وِیراں سی نگاہیں
ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری
نفس کا سوز، دل کی بے قراری
خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے
عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے
حکایت ہے ابھی پِچھلے دنوں کی
کوئی لڑکی تھی ننّھی، کامنی سی
گلے زیبا قبائے نوبہارے
سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے
بہت صُبحوں کی باتیں تھیں انیلی
بہت یادوں کی باتیں تھی انیلی
کبھی ساماں تھے دل کے توڑنے کے
کبھی پیماں تھے پِھر سے جوڑنے کے
عجب تھا طنز کرنے کا بہانا
نہ تم انشاؔ جی! ہم کو بُھول جانا
بہت خُوش تھے، کہ خُوش رہنے کے دن تھے
بہر ساعت، غزل کہنے کے دن تھے
زمانے نے نیا رُخ یُوں دیا
اُسے ہم سے، ہمیں اُس سے چھڑایا
پلٹ کر بھی نہ دیکھا پِھر کسی نے
اسی عالم میں گُزرے دو مہینے
کگر ہم کیسی رو میں بہہ چلے ہیں
نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں
ستارے! صُبح روشن کے ستارے
تُجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے
ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے
ہم اپنا حال تُجھ سے نہ کہیں گے
گُزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے
عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment