تیرے ابرووں کی حسیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ سِتم سے کم
یہ کرم ہے کم، سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
نہیں جس میں تیری تجلیاں، اسے جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نُور کا نہ ظہور ہو تو وجُود بھی ہے عدم سے کم
کبھی انعکاسِ جمال ہے، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ، کسی آئینے کے بھرم سے کم
مہ و آفتاب و نجُوم سب، ہیں ضیا فگن، نہیں اس میں شک
ہے مسلّم اُن کی چمک دمک، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم
یہی آرزو، یہی مُدعا، کبھی وقت ہو تو سُنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم
یہ نصیرؔ! دفترِ راز ہے، یہ غبارِ راہِ نیاز ہے
کریں اس پہ اہلِ جہاں یقیں، نہیں اِس کا قول، قسم سے کم
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment