Saturday 1 September 2012

فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ

فاصلے اتنے بڑھے ہِجر میں آزار کے ساتھ
اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نِکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
اِک تو تم خواب لیے پِھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
ہم  کو اس شہر میں جینے کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
خوف اِتنا ہے تیرے شہر کی گلیوں میں فرازؔ
چاپ سُنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ 

احمد فراز

No comments:

Post a Comment