Saturday 15 September 2012

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے
ہے رات الگ ، صبح کا اخبار الگ ہے
کچھ خون کی سرخی سی چمکتی ہے زمین پر
سَر دھڑ سے الگ، ہاتھ سے تلوار الگ ہے
سنتے تھے بہت شور مسیحائی کا، جس کی
اب وقت پڑا ہے تو وہ بیمار الگ ہے
ڈھوتے ہیں شب و روز یہ الفاظ کی اِینٹیں
رہتی ہے ادھوری ہی وہ دیوار الگ ہے
کونے میں ادھر اونگھتی خاموشی کا پَرتَو
کاغذ پہ اِدھر لفظ کی تکرار الگ ہے
کھلتے ہی چلے جاتے ہیں یہ میرے پلندے
اور سب سے بڑا آخری طومار الگ ہے
ہر روز کسی جنگ میں مصرُوف ہوں میں بھی
سایہ بھی میرا برسرِ پیکار الگ ہے
اب کان پڑے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا
لیکن تِری پازیب کی جھنکار الگ ہے
ہر سمت زمین تنگ ہوئی جاتی ہے عادل
اوپر سے یہ افلاک کی یلغار الگ ہے

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment