فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے
کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے
باعثِ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
آئے بِکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا
وہ تو بے مول تھے نِیلام سے پہلے پہلے
ہو بھی سکتا ہے خاص نظر آنے لگیں
وہ جو لگتے ہیں عام سے پہلے پہلے
ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر
ہم بھی چونک اُٹھتے تھے اِک نام سے پہلے پہلے
ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر
ہاں مگر گردشِ ایام سے پہلے پہلے
کس قدر تیز ہوائیں تھیں سرِشام کہ دل
جل بُجھا رات کے ہنگام سے پہلے پہلے
اب کے مُشکل وہ پڑی ہے کہ یہ جاں جاتی ہے
سعدؔ! رہتے تھے ہم آرام سے پہلے پہلے
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment