Sunday 16 September 2012

غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں

غمِ ہِجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار، سنا ہے کہ نہیں
وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
جھانک لے سینے میں کمبخت ذرا، ہے کہ نہیں
مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا
یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں
سامنے آنا، گُزر جانا، تغافل کرنا
کیا یہ دُنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں
اہلِ دل نے اُسے ڈُھونڈا، اُسے محسوس کیا
سوچتے ہی رہے کچھ لوگ، خُدا ہے کہ نہیں
تم تو ناحق مری باتوں کا بُرا مان گئے
میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے، بجا ہے کہ نہیں؟
آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیرؔ
سوچتا ہوں، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment