Tuesday, 4 September 2012

عشق بے دم ہے تو فردوس وفا مت ڈھونڈو

عِشق بے دم ہے تو فردوسِ وفا مت ڈھونڈو
ریت پھانکی ہے تو گندم کا مزا مت ڈھونڈو
سر سے پا تک ہوں جب اُتری ہوئی سرسوں کی رُتیں
پِھر کِسی ہاتھ پہ نیرنگِ حِنا مت ڈھونڈو
دھجّیاں اپنی حمیّت کی، چُھپاؤ گے کہاں
سر سے نوچی ہوئی، بیٹی کی رِدا مت ڈھونڈو
جُرم کے بوجھ سے دبتا ہے تو روتا ہے ضمیر
ہر طرف سے جو اُمڈتی ہے صدا، مت ڈھونڈو
حضرتِ خضرؑ کو بھی زحمتِ خیرات نہ دو
تَن کے جِینا ہے تو پِھر آبِ بقا مت ڈھونڈو
اپنے ایمان کو آوارہ نہ ہونے دو کبھی
ایک مِل جائے تو ایک اور خُدا مت ڈھونڈو
اس سے پُوچھو، سفرِ حبسِ شبی کیسے کٹا
دامنِ صُبح میں گُل ہائے صَبا مت ڈھونڈو
اُفقِ حُسن سے اِک پَل بھی نِگاہیں نہ ہٹیں
عشق کرنا ہے تو کُچھ اس کے سوا مت ڈھونڈو
تم جب انساں ہو تو انساں کی جبلّت میں ندیمؔ
خیر کے پُھول چُنو اور خطا مت ڈھونڈو

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment