Sunday, 16 September 2012

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں، سزا دے اے خدائے عشق! اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
درحقیقت، جیسے مجھ کو اِعتبار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگر  نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment