Monday 24 September 2012

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اِس لیے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندۂ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گریزاں بھی رہے
اس کا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت
کتنی یادیں، کِتنے منظر آبدیدہ ہو گئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت

سرور بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment