Tuesday 4 September 2012

گھبرا کے شب ہجر کی بے کیف سحر میں

گھبرا کے شبِ ہجر کی بے کیف سحر میں
تارے اُتر آئے ہیں میرے دیدۂ تر میں
وہ آڑ میں پردے کے، تیری نِیم نِگاہی
ٹُوٹے ہوئے اِک تِیر کا ٹُکڑا ہے جِگر میں
اب وقت کے قدموں میں تحیّر کی ہے زنجِیر
میں تیری نظر میں ہوں، جہاں میری نظر میں
اس پُھول سے چہرے سے جب اُٹھ جاتے ہیں پردے
کانٹے سے کھٹک جاتے ہیں دامانِ نظر میں
اللہ! میرے کُفر سے تُو قطعِ نظر کر
مَیں تیری جھلک دیکھتا ہوں حُسنِ بشر میں

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment