گھبرا کے شبِ ہجر کی بے کیف سحر میں
تارے اُتر آئے ہیں میرے دیدۂ تر میں
وہ آڑ میں پردے کے، تیری نِیم نِگاہی
ٹُوٹے ہوئے اِک تِیر کا ٹُکڑا ہے جِگر میں
اب وقت کے قدموں میں تحیّر کی ہے زنجِیر
اس پُھول سے چہرے سے جب اُٹھ جاتے ہیں پردے
کانٹے سے کھٹک جاتے ہیں دامانِ نظر میں
اللہ! میرے کُفر سے تُو قطعِ نظر کر
مَیں تیری جھلک دیکھتا ہوں حُسنِ بشر میں
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment