شب خانۂ رقیب میں تا صبح سو چکے
اب فائدہ مکرنے سے ہم دیکھ تو چکے
کہتے ہو جنسِ دل کو ہماری بغل میں دیکھ
بولو نہ بیچتے ہو تو قیمت کہو چکے
قیمت ہے ایک بوسہ دمِ نقد ایسے جی
رونا ہی تھا یہ موجبِ افشائے رازِ عشق
یہ مردمانِ چشم مجھے تو ڈبو چکے
پھر جان بوجھ کہتے ہو جاتا ہوں جائیے
تشریف لے سدھارئیے ہم دل کو رو چکے
میں جانتا ہوں آپ کو ہر گز نہ مول لیں
قیمت جو دل کی ایک ہی بوسہ پہ گو چکے
خوابِ عدم سے شورِ جنوں نے جگا دیا
انشاؔ بس اور نیند کہاں، خوب سو چکے
انشا اللہ خان انشا
No comments:
Post a Comment