Thursday 6 September 2012

شب خانہ رقیب میں تا صبح سو چکے

شب خانۂ رقیب میں تا صبح سو چکے
اب فائدہ مکرنے سے ہم دیکھ تو چکے
کہتے ہو جنسِ دل کو ہماری بغل میں دیکھ
بولو نہ بیچتے ہو تو قیمت کہو چکے
قیمت ہے ایک بوسہ دمِ نقد ایسے جی
تم چاہتے ہو مفت میں کچھ لو نہ دو چکے
رونا ہی تھا یہ موجبِ افشائے رازِ عشق
یہ مردمانِ چشم مجھے تو ڈبو چکے
پھر جان بوجھ کہتے ہو جاتا ہوں جائیے
تشریف لے سدھارئیے ہم دل کو رو چکے
میں جانتا ہوں آپ کو ہر گز نہ مول لیں
قیمت جو دل کی ایک ہی بوسہ پہ گو چکے
خوابِ عدم سے شورِ جنوں نے جگا دیا
انشاؔ بس اور نیند کہاں، خوب سو چکے

انشا اللہ خان انشا

No comments:

Post a Comment