گِرتے گِرتے ایک طُوفانِ قیامت زا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا
اللہ! اللہ! یہ کمالِ جذبہٴ پنہانِ عشق
جو گِرا آنکھوں سے آنسُو، حُسن کا دریا ہوا
لے چلا ہوں میں بھی نذرِ حُسنِ جاناں کو جگر
ساتھ دل کے، ایک سازِ آرزو ٹوٹا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا
اللہ! اللہ! یہ کمالِ جذبہٴ پنہانِ عشق
جو گِرا آنکھوں سے آنسُو، حُسن کا دریا ہوا
لے چلا ہوں میں بھی نذرِ حُسنِ جاناں کو جگر
ساتھ دل کے، ایک سازِ آرزو ٹوٹا ہوا
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment