زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر، جانے دو
جو گُزرنی ہے قیامت وہ گُزر جانے دو
دیکھتے جانا بدل جائے گا منظر سارا
یہ دُھواں سا تو ذرا نیچے اُتر جانے دو
پِھر چلے آئے ہو تم میری مسیحائی کو
ایک خُوشبو کی طرح زندہ رہو دُنیا میں
اور پِھر کیا ہے اگر خُود کو بِکھر جانے دو
آرزو اپنی بدل ڈالو خُدا کی خاطر
اُن کی دہلیز پہ پھوڑو نہ یہ سر، جانے دو
دلِ ناداں! تُو سمجھتا ہی نہیں دُنیا کو
کون رکھتا ہے بھلا کس کی خبر، جانے دو
سعدؔ! تم عیب نکالو نہ ہمارے ایسے
ہم بھی رکھتے ہیں گِلے شِکوے، مگر جانے دو
سعد اللہ شاہ
No comments:
Post a Comment