Thursday 4 October 2012

کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا

کسی کے لَمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا
اندھیری شب میں تغیّر پزیر تھی ہر شے
بس ایک جسم ہی تھا جس پہ انحصار کیا
مِرے مکانِ جسد پہ مِری حکومت تھی
کہ خود ہی غلبہ کیا خود ہی واگزار کیا
وجودِ خاک تھا، دریا سے جنگ کی میں نے
کہ سطحِ آب کو میدانِ کارزار کیا
کشش نے کھینچ لیا تھا زمین پر مجھ کو
سو گِرتے گِرتے بھی میں نے خلا شکار کیا

رفیق سندیلوی

No comments:

Post a Comment