طوافِ شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے
کہیں دیوار آتی ہے، نہ کوئی دَر نکلتا ہے
مگر اِک فاصلہ اوّل سے آخر تک برابر ہے
نہ ہم منزل بدلتے ہیں، نہ وہ رَستہ بدلتا ہے
ہماری بیشتر باتیں، فقط محدود ہم تک ہیں
بہت موہوم سی آہٹ، بہت مدھم کوئی جذبہ
ہمارے ساتھ چلتا ہے، ہمارے ساتھ رہتا ہے
وہ لفظوں اور جذبوں کی رفاقت کا نہیں قائل
جہاں چاہے، کہانی کا تسلسل توڑ دیتا ہے
کسی پر بھی نہیں موقوف اس کی رونقیں لوگو
یہ صحرا ہے، اُجڑ بھی جائے تو آباد رہتا ہے
خیال دوستاں ہو یا ہجوم گُل رُخاں عظمیؔ
ذرا سی روشنی یا تھوڑی خُوشبو چھوڑ جاتا ہے
اسلام عظمی
No comments:
Post a Comment