Monday 29 October 2012

وہ مرے دل کا حال کیا جانے

وہ مِرے دل کا حال کیا جانے
سوزِ رنج و ملال کیا جانے
ہر قدم فتنہ ہے، قیامت ہے
آسماں تیری چال کیا جانے
صبر کو سب کمال کہتے ہیں
عاشقی یہ کمال کیا جانے
خون ہوتا ہے کس کی حسرت کا
میرا رنگیں جمال کیا جانے
وہ غریبوں کا حال کیوں پوچھے
وہ غریبوں کا حال کیا جانے
کھو گیا ہو جو دل تصور میں
وہ فراق و وصال کیا جانے
سیلِ خوں کیوں رواں ہے آنکھوں سے
موسمِ برشگال کیا جانے
مر رہے ہیں فراق میں اخترؔ
وہ مگر اپنا حال کیا جانے

اخترؔ شیرانی

No comments:

Post a Comment