Friday 12 October 2012

رونقیں گھر میں رہیں بس اسی آواز کے ساتھ

ہم، امی اور تنہائی


رونقیں گھر میں رہیں بس اُسی آواز کے ساتھ

گو تھیں تکلیف میں‌ لیکن رہیں اعجاز کے ساتھ

بے غرض مِلتی رہیں ماں کی دُعائیں ہر دم

لوگ آواز لگاتے نہیں آواز کے ساتھ

وقتِ رُخصت بڑی رونق تھی، سو آیا یہ خیال

کون آئے گا یہاں اب مِری پرواز کے ساتھ؟

گھر کہاں‌ گھر رہا، تنہائی ہے، دیواریں ہیں

ہم نہ جی پائیں گے ایسے نئے انداز کے ساتھ

سارے کاموں کے لیے ماں کی نصیحت یہ تھی

فکرِ انجام ہمیشہ رہے آغاز کے ساتھ

نِت نئے پہلُو تھے اُس ذات کے ہر روز عدیلؔ

جس طرح ساز چُھپے رہتے ہیں‌ ہر ساز کے ساتھ


عدیل زیدی 

No comments:

Post a Comment