Monday 27 February 2017

عشق کیا اور کیا ہوس بس بس

عشق کیا اور کیا ہوس، بس بس 
چھوڑ دے تُو یہ بحث، بس بس بس 
کچھ نشاں تو کمر کا رہنے دے
یوں نہ بندِ قبا کو کس، بس بس
ہو گیا راکھ ، جل کے ہاتھ مِرا
جب ہُوا اس بدن سے مَس، بس بس 

نشہ وصل کے خمار میں تھا

نشۂ وصل کے خمار میں تھا
میں کہ جو گم خیالِ یار میں تھا
اس لیے جبر اختیار کِیا
جبر ہی میرے اختیار میں تھا
اس نے دیکھا تو سب کو آیا نظر
ورنہ میں کب کسی شمار میں تھا

خوشبوئے گُل کو یوں نہ بکھر جانا چاہئے تھا

خوشبوۓ گُل کو یُوں نہ بکھر جانا چاہیے تھا
خود موجۂ ہوا کو ٹھہر جانا چاہیے تھا
کیوں ہو گیا محِیط مِری ساری زندگی پر
اس پَل کو، ایک پَل میں گزر جانا چاہیے تھا
دیکھا اسے تو بڑھ کے گلے لگ گیا میں خود ہی
حالانکہ مجھ کو موت سے ڈر جانا چاہیے تھا

چراغ ہجر جلا ہے جلا رہے گا دوست

چراغِ ہجر جلا ہے جلا رہے گا دوست 
ہمارا چہرہ بجھا ہے، بجھا رہے گا دوست
شکستگاں کو ملے گا شکستگاں کا لہو
یہ سلسلہ سرِ مقتل بنا رہے گا دوست 
فنا پذیر ہے دنیا،۔ فنا پذیر ہیں لوگ 
خدا رہا ہے ہمیشہ، خدا رہے گا دوست

غم کے دوزخ کا دھواں شہر پہ جب چھا جائے

غم کے دوزخ کا دھواں شہر پہ جب چھا جائے 
سنسناتی ہوئی آندھی بھی وہیں آ جائے 
دیکھنے والے تِری آنکھ میں وہ منظر ہیں 
دیکھنے والا جنہیں دیکھ کے پتھرا جائے 
چہرۂ زیست ہے جلاد کا چہرہ دراصل 
شرط یہ ہے کہ ذرا غور سے دیکھا جائے 

ان گھٹن آلود خوابوں کو خزانہ مت سمجھ

ان گھٹن آلود خوابوں کو خزانہ مت سمجھ
جو دکھائی دے رہا ہے دوست ویسا مت سمجھ
آگ میں پھونکے تخیل کے لیے کیا حرفِ داد
راکھ ہوتی شاعری کو میرا لہجہ مت سمجھ
ذائقہ اس شہر کے موسم کا ہے کھارا بہت
پھل درختوں پر لگا ہے جو وہ میٹھا مت سمجھ

حبس میں لپٹا ہوا موسم اگر ساون بنے

حبس میں لپٹا ہوا موسم اگر ساون بنے
سانس دروازے کھلیں تن روح کا مسکن بنے
مفلسی آنکھوں کے ایوانوں سے باہر آ گئی 
خواب میزوں پر رکھے تو کانچ کے برتن بنے
ہر صراحی چومتا ہوں اس نشے کے ساتھ میں 
معجزائے عشق سے شاید تری گردن بنے

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے
عشق پھر ہم کو دوبارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آپ اندازہ لگاتے رہیں بس جگنو کا
مری مٹھی میں ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ یہ جان لٹا دی جائے
اس کی یادوں پہ گزارہ بھی تو ہو سکتا ہے

ترے کانوں میں کوئی بات بتانی تھی ہمیں

ترے کانوں میں کوئی بات بتانی تھی ہمیں
دل میں سکھیوں کے تری آگ لگانی تھی ہمیں
ہمیں بازار نے ٹھکرایا تو گھر لوٹے ہیں 
اک محبت تو بہرحال نبھانی تھی ہمیں
چاندنی آپ کی آنکھوں میں بھلی لگتی ہے 
ہو اجازت تو ذرا عمر بِتانی تھی ہمیں

دھڑکنیں محبت کی دل نشین خاموشی

دھڑکنیں محبت کی، دل نشین خاموشی
مرحبا اے ہنگامو! آفرین خاموشی
کج بیاں ٹھکانوں سے، دور اک خرابے میں 
گھر بنا کے رہتی ہے، اک ذہین خاموشی
شام ہے یہ وعدے کی، عشق کے ارادے کی
اک جواں سا سناٹا، اک حسین خاموشی

ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ شامیں رکھ دیں

ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ شامیں رکھ دیں
شعر میں لفظ رکھے، لفظ میں چیخیں رکھ دیں
میں نے بھی اس کو دیا پہلی ملاقات میں دل
میرے دامن میں بھی اس نے مری غزلیں رکھ دیں
یوں لگا آنکھ بچانے پہ جھپکتی ہے پلک
اسی تصویر پہ میں نے بھی نگاہیں رکھ دیں

Wednesday 22 February 2017

یہ عشق ہے جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی

یہ عشق ہے جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
یہ کاروبار یوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
سینے کا سنگ ہے تو سنبھل کر سہارئیے
سچ کوہِ بے ستوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کس کس جگہ ذلیل ہو کس کس جگہ ہو خوار
انسان یوں زبوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی

ناراض ہو کیوں کیا یہ مدینہ ہے سکینہ

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

ناراض ہو کیوں، کیا یہ مدینہ ہے سکینہ
بتلاؤ، کہ یہ کیسا پسینہ ہے سکینہ؟
زندان بہ زندان ہے تُو قید ہے جس میں
جو راستہ ہے زینہ بہ زینہ ہے سکینہ
عباس! بھتیجی کی طرف غور سے دیکھو
یہ تشنہ بہ لب جو ہے، سکینہ ہے سکینہ

ہم نے کیا کیا نہ کیا اہل ہنر ہونے تک

ہم نے کیا کیا نہ کیا اہلِ ہنر ہونے تک 
خون ہوتا ہے جگر آئینہ گر ہونے تک
ایک پروانہ کہ تھا محوِ طوافِ شبِ ہجر
پہلوئے شمع میں تھا وہ بھی سحر ہونے تک
یاد رکھیو کہ محبت میں نہیں صرف جنوں
یونہی دیوانے پھرو دشت میں گھر ہونے تک

ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کھدی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی
اگربتی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشمِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پُرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنزِ غمِ جاوید میں صدہا الم ہیں، عرصۂ غم ہے

Tuesday 21 February 2017

جو خوشی جو تیری رضا میاں تری خیر ہو

جو خوشی جو تیری رضا، میاں تِری خیر ہو
تُو بچھڑ رہا ہے تو جام میاں تری خیر ہو
کہیں یہ نہ ہو کوئی تجھ شجر کو بھی کاٹ دے
تُو بچا ہے گھر میں بڑا، میاں تری خیر ہو
خبر آ نہیں رہی خیر کی کسی سمت سے
مجھے جب سے اس نے کہا میاں تری خیر ہو

ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے

ڈوب جائیں گے تو پانی سے نکل آئیں گے
گمشدہ لوگ کہانی سے نکل آئیں گے
اس کی مٹھی میں گرفتار ہیں ہم ریت کی شکل
رکتے رکتے بھی روانی سے نکل آئیں گے
ہم کہ تعمیر اسی شک میں دوبارہ نہ ہوئے
رائیگاں صورتِ ثانی سے نکل آئیں گے

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

ٹھہرنا بھی مِرا جانا شمار ہونے لگا 
پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا
وہ سنگ جس کو حقارت سے رات بھر دیکھا
سحر ہوئی تو سرھانا شمار ہونے لگا
پھر ایسے ہاتھ سے مانوس ہو گئی تسبیح 
گنے بغیر بھی دانہ شمار ہونے لگا

قائل آہ و فغاں کے تھے ہی نہیں

قائل آہ و فغاں کے تھے ہی نہیں
ساۓ اس سائباں کے تھے ہی نہیں
شور گریہ پزیر ہوتا تھا 
قابل اپنے بیاں کے تھے ہی نہیں
ہمیں لوگوں نے اجنبی سمجھا 
ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں

میان دوستاں رہتا بہت ہوں

میانِ دوستاں رہتا بہت ہوں 
کہوں کس سے کہ میں تنہا بہت ہوں 
نجانے کیا خطا سرزد ہوئی تھی
میں اپنے آپ پر برسا بہت ہوں
پرندے بھی مجھے پہچانتے ہیں
میں ان پیڑوں تلے بیٹھا بہت ہوں

رنج و آزردگی میں کیا کچھ تھا

رنج و آزردگی میں کیا کچھ تھا
تیری موجودگی میں کیا کچھ تھا
چھوڑ آیا جنہیں سسکتے ہوئے
ہائے اس کی گلی میں کیا کچھ تھا
اس طرف تو بہت اندھیرا تھا
اس طرف روشنی میں کیا کچھ تھا

واہموں نے گھیرا ہے

واہموں نے گھیرا ہے 
دھوپ میں اندھیرا ہے
دور کے زمانے میں 
جوگیوں کا ڈیرہ ہے
پانیوں میں بہتے ہیں 
کون تیرا میرا ہے

سحر تہذیب نو تھا کہ تھی بے حسی نوحہ خواں چپ رہے

سحرِ تہذیبِ نَو تھا، کہ تھی بے حسی، نوحہ خواں چپ رہے
ایک بوڑھا بلکتے ہوۓ مر گیا، اور جواں چپ رہے
جان پاۓ نہ کچھ تیرے آگے فراوانئ شوق میں
ہم کہاں بے سبب بولتے ہی گئے اور کہاں چپ رہے
سسکیوں پر کہاں تک بھروسہ کیے جاؤ گے شاعرو؟
جبکہ دلدوز چیخوں کو سن کر بھی ہفت آسماں چپ رہے

برف پر خاک کے جالے نہیں اچھے لگتے

برف پر خاک کے جالے نہیں اچھے لگتے
ذہن پر خوف کے تالے نہیں اچھے لگتے
ریت تھکتے ہوئے قدموں کا بُرا مانتی ہے
دشت کو پاؤں کے چھالے نہیں اچھے لگتے
اس کا کہنا ہے چراغوں پہ قناعت کر لو
اور مجھے زرد اجالے نہیں اچھے لگتے

درد لا دوا دنیا

دردِ لا دوا دُنیا 
ایک ابتلا دنیا
وقت کے تعاقب میں
ہانپتی ہوا دنیا
یار کیوں نہیں ملتا
تُو ہی کچھ بتا دنیا
ہم تو عشق والے تھے

طالوت نکل آئے ہیں جالوت نکل آئے

طالُوت نکل آئے ہیں جالُوت نکل آئے
اس ’کہنہ قبیلے‘ سے کئی پُوت نکل آئے
جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھے تُو
اندر سے مِرے عالمَ لاہوت نکل آئے
خوابوں کو لہو کرنے سے تب تک نہ ہٹوں گا
جب تک نہ مِری آنکھ سے یاقُوت نکل آئے

عجلت کو اختیار نہ کر انتظار کر

عجلت کو اختیار نہ کر انتظار کر
خود پر جنوں سوار نہ کر انتظار کر
یہ اضطرار ضعفِ جنوں کی دلیل ہے
یوں خود کو بے قرار نہ کر انتظار کر
مانا کہ شہرِ دل کی فصیلوں میں چھید ہیں
قائم ابھی حصار نہ کر انتظار کر

تو رزم گاہ تجسس میں دو بدو بھی نہیں

تُو رزم گاہِ تجسس میں دو بدو بھی نہیں
شکست خوردہ نہیں میں تو سرخرو بھی نہیں
اسے تو عالمِ لاہوت کہہ کے ٹال دیا
وہاں سے خاک ملے گی وہاں تو ’ہُو‘ بھی نہیں
تجھے جہاں کے پس و پیش میں تلاش کیا
تو جا بہ جا بھی نہیں ہے، تو رو برو بھی نہیں

Monday 20 February 2017

آنسو سارے زخم پرانے دھو سکتا ہے

آنسو سارے زخم پرانے دھو سکتا ہے
پانی ہی پانی کے جیسا ہو سکتا ہے
اِن آنکھوں کی گہرائ سے ڈر جاتی ہوں
کاجل بھی آنکھوں میں جا کر کھو سکتا ہے
رات کو دیکھا خواب کئی تھے خواب کے اندر
خواب میں کوئی کتنے خواب سمو سکتا ہے

کوئی شکوہ مجھے تقدیر سے بیجا نہیں تھا

کوئی شکوہ مجھے تقدیر سے بیجا نہیں تھا
وہ میرا ہو بھی سکتا تھا مگر میرا نہیں تھا
مِرا ثابت قدم رہنا ضروری ہو گیا تھا 
مِرے چاروں طرف کوئی مِرے جیسا نہیں تھا
اسی اک سمت جاتے تھے سبھی رستے ہمارے
اسی اک سمت جانے کو مگر رستہ نہیں تھا

نہ کبھی تھی نہ پھر کبھی ٹھہری

نہ کبھی تھی نہ پھر کبھی ٹھہری
بات جو تھی مگر وہی ٹھہری
مجھ کو سمجھا رہے تھے فرزانے
اور میں ایک سر پھِری ٹھہری
جیسے جھرنا ہو گیت گاتا ہوا
میرا بچپن وہی ہنسی ٹھہری

ہے صبح دکھ اور شام دکھ ہے تمام دکھ ہے

ہے صبح دکھ اور شام دکھ ہے، تمام دُکھ ہے
نصیبِ انساں مدام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
میں قطرہ قطرہ ہی پی رہا ہوں کہ جی رہا ہوں 
یہ زندگانی کا جام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
نہ سن سکو گے مِری کہانی، مِری زبانی
تمام دکھ ہے، تمام دکھ ہے، تمام دکھ ہے

تھے اپنے ساتھ جو گرم سفر زیادہ تر

تھے اپنے ساتھ جو گرمِ سفر زیادہ تر
گئے ہیں راہ میں وہ چھوڑ کر زیادہ تر
کوئی کرے تو بھلا کس کا اعتبار کرے
کہ راہزن ہیں یہاں راہبر، زیادہ تر
جو بے ثمر ہیں، وہی سر کشیدہ ہوتے ہیں
خمیدہ رہتے ہیں صوفی شجر، زیادہ تر

کار دنیا کی الگ بات کہ ہاں ٹھیک نہیں

کارِ دنیا کی الگ بات کہ ہاں ٹھیک نہیں 
عشق میں فکر و غمِ سُود و زیاں ٹھیک نہیں
کچھ دنوں سے رگِ جاں ٹوٹتی رہتی ہے مِری 
کچھ دنوں سے مِری جاں! حالتِ جاں ٹھیک نہیں
ان کو معلوم ہی کب طرزِ جدا گانہ مِرا 
جو یہ کہتے ہیں، مِرا طرزِ فغاں ٹھیک نہیں

جب منڈیروں پہ چراغوں کی کمک جاری تھی

جب منڈیروں پہ چراغوں کی کمک جاری تھی
لفظ تھے لفظوں میں احساس کی سرداری تھی
اب جو لوٹا ہوں تو پہچان نہیں ہوتی ہے
کہاں در تھا، کہاں دیوار تھی، الماری تھی
وہ حویلی بھی سہیلی تھی پہیلی جیسی
جسکی اینٹوں میں میرے خواب تھے خودداری تھی

دیوار الجھ پڑی تو کبھی در الجھ پڑا

دیوار الجھ پڑی تو کبھی در الجھ پڑا
جب سے کوئی وجود کے اندر الجھ پڑا
میں آئینے کو دیکھ رہا تھا، کہ آئینہ
مجھ حیرتی سے آنکھ ملا کر الجھ پڑا
آواز دے رہا تھا کنارے پہ موج کو
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے سمندر الجھ پڑا

زندگی نیند سے بیداری تک کا ثانیہ ہے

زندگی نیند سے بیداری تک کا ثانیہ ہے

لمبی سیاہ رات گزرنے کے بعد 
صبح کی پہلی دستک 
روشن کر دیتی ہے
بجھے ہوۓ چہرے 
اور زندہ کر دیتی ہے 
مری ہوئی آوازیں، کھڑکیاں اور کواڑ

Sunday 19 February 2017

عذاب ہمسائیگی

اقتباس از عذابِ ہمسائیگی

کرو تم یاد اس دن کو کہ جب تم نے
ہماری اک رقم کو روکنے کا فیصلہ کر کے
ہمیں مشکل میں ڈالا تھا
تمہارے اس غلط اور غاصبانہ حکم کی تنسیخ کی خاطر
تمہارے قائدِ اول نے خود کش برتھ رکھا تھا

کہ مذہب ہار جاتا ہے سیاست جیت جاتی ہے

مذہبی رہنما

کہ مذہب ہار جاتا ہے سیاست جیت جاتی ہے
مجھے اپنی ہمہ دانی کے اوپر عزمِ راسخ ہے 
سو میں بے تاب ہو کر پرچمِ مذہب اٹھاتا ہوں
اور اس کی چھتر چھایا میں 
مفاداتِ دُنی کے قافلے کو لے کے چلتا ہوں

عروج آدمیت حقوق نسواں

اقتباس از عروجِ آدمیت حقوقِ نسواں

یہ تھا ادبار عورت پر کہ جب پیغامِ حق آیا
خواتیں کے لیے انصاف کا پہلا سبق آیا
ہوا نازل صحیفۂ آخری توقیرِ انساں کا
دکھی عورت کی خاطر امن کا پیغامبر آیا
حرا کے غار سے روشن ہوا خورشید ایماں کا
ہوا منشورِ نو جاری حقوقِ نوعِ انساں کا

جرگہ تمہیں ایک فوقیت حاصل تھی دنیائے تمدن میں

(اقتباس از جرگہ (خود ساختہ قوانین 

تمہیں ایک فوقیت حاصل تھی دنیائے تمدن میں
تمہاری امتیازی شان تھی اقوامِ عالم میں
جہاں میں ایک نشاطِ ثانیہ کے پیش رو تم تھے
کئی اقدار کے بانی تھے تہذیبوں کے آنگن میں
جب انسانوں کے اوپر ظلم کا خفقان طاری تھا
تو اہلِ عالمِ اسلام کا فیضان جاری تھا

کرنے کو ستم ہم پر وہ کیا کیا نہیں کرتے

کرنے کو ستم ہم پر وہ کیا کیا نہیں کرتے
پر جاں سے گزر جائیں وہ اتنا نہیں کرتے
رِستے ہوئے زخموں کی نمائش نہیں کرتے
تپتے ہوئے احساس کا چرچا نہیں کرتے
تاریخ کے صحرا میں اڑاتے نہیں ہم خاک
مجنوں ہیں مگر ویسا تماشا نہیں کرتے

لگیں کس بے زباں کی بد دعائیں

لگیں کس بے زباں کی بد دعائیں
نگر کرنے لگا ہے سائیں سائیں
مجھے مسمار کرتی جا رہی ہیں
تِری یادوں کی پتھریلی ہوائیں
زمانے نے یہ پابندی لگائی
تِرے رونے کی آوازیں نہ آئیں

مرے خوابوں کے قتل عام کی ساری کہانی

مِرے خوابوں کے قتلِ عام کی ساری کہانی

مِرے اپنوں نے خوشیوں کے ہمالے سے
اترتا، رقص کرتا، بیش قیمت، قہقہوں کا بار ور پانی
مِرے دشمن کے ہاتھوں سستے داموں بیچ ڈالا ہے
اور، اب
دریائے راوی کے کنارے

صبح: جنوری کی شام کتنی سرد ہے

صبح

جنوری کی شام کتنی سرد ہے
سُن ہُوا جاتا ہے سانسوں کا بدن
برف ہے آنکھوں کی چھت پر
اور، سینے میں چُبھن
دل کے شام آلود آنگن میں مگر
دید کی امید کے روغن سے روشن اِک دِیا

تو نے پھول بھیجا ہے

ویلینٹائنز ڈے

تُو نے پھول بھیجا ہے
جس میں تیرے ہاتھوں کی
نرم خوشبوئیں بھی ہیں
اور تیری قربت کی، جاگتی کہانی بھی
زندگی کے دریا کی ناچتی روانی بھی
بات کاٹنے والی بے دھڑک جوانی بھی

Wednesday 15 February 2017

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہُوں، کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شبہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

یونہی افزائش وحشت کے جو ساماں ہوں گے

یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہمشکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنا ہے امیدِ کرم تجھ سے
امیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے
وارفتگیِ دل ہے یا دستِ تصرف ہے
ہیں اپنے تخیل میں دن رات بہم تجھ سے

سکوت و خامشی اظہار حال بے زبانی ہے

سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے
عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی
مگر رندِ قدح کش کا ابھی دورِ جوانی ہے
ثباتِ چند روزہ کار فرمائے غم و حسرت
اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے

Tuesday 14 February 2017

آج بھی شاہیں ساتھ ہے میرے بچھڑے ہوئے اک ساتھ کا دکھ

آج بھی شاہیؔں ساتھ ہے میرے بچھڑے ہوۓ اک ساتھ کا دکھ
دل میں آ کر بیٹھ گیا ہے، ٹوٹی اُجڑی ذات کا دکھ
موت کو جیون جان کے شب بھر جاگنا ہے معمول مرا
شب بھر چنتی رہتی ہوں میں ہجر میں ڈوبی رات کا دکھ
خوشیوں کے پیراہن میں ملبوس ہیں یوں تو لوگ سبھی 
کون بھلا کب جان سکا ہے ٓ، حال کا اور حالات کا دکھ

زخموں سے کہاں لفظوں سے ماری گئی ہوں میں

زخموں سے کہاں، لفظوں سے ماری گئی ہوں میں
جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں میں
مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو مِلا
ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں
افسوس مجھ کو اس نے اتارا ہے گور میں
جس کے لیے فلک سے اتاری گئی ہوں میں

یہ عشق عجب لمحہ توقیر ہے جاناں

یہ عشق عجب لمحۂ توقیر ہے جاناں
خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں
جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا
کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں
اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی نہیں تھی
آنکھوں میں مگر اس کی ہی تاثیر ہے جاناں

اک جھلک دیکھ کے حیران بھی ہو سکتا ہے

اک جھلک دیکھ کے حیران بھی ہو سکتا ہے
آئینہ ہے، سو پریشان بھی ہو سکتا ہے
عین ممکن ہے کہ ہو تیری طرف دھیان مِرا
اور کسی اور طرف دھیان بھی ہو سکتا ہے
تُو اگر دیکھنے آ جائے مجھے آخری بار
مرحلہ موت کا آسان بھی ہو سکتا ہے

گہے کھنچے کھنچے گاہے ڈرے ڈرے مرے دوست

گہے کھنچے کھنچے،  گاہے ڈرے ڈرے، مِرے دوست
رہے ہمیشہ ہی مجھ سے پرے پرے، مرے دوست
عجیب مُردنی چھائی ہے سب کے چہروں پر
ہیں زندہ ہوتے ہُوئے بھی مَرے مَرے، مرے دوست
یہ خوشبوئیں یونہی پھیلی نہیں ہیں سارے میں 
ادھر سے گزرے ہیں پریوں کے کچھ پَرے، مرے دوست

چشم خوش آب کی تمثیل نہیں ہو سکتی

چشمِ خوش آب کی تمثیل نہیں ہو سکتی
ایسی شفاف کوئی جھیل نہیں ہو سکتی
میری فطرت ہی میں شامِل ہے محبت کرنا
اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی
اس کے دل میں مجھے اک جوت جگانا پڑے گی
خود ہی روشن کوئی قندیل نہیں ہو سکتی

آغاز مقرر تو ہے انجام مقرر

آغاز مقرر تو ہے انجام مقرر
سودا نہیں ہوتا ہے یہاں دام مقرر
آتی ہیں نئے رعب میں مغرور یہ صبحیں 
ہر صبح کی ہوتی ہے مگر شام مقرر
انساں کو فخر کیا کہ نئی منزلیں کھوجے
ہر راہ مقرر ہے تو ہے گام مقرر

کئے محبت سے جو تھے پہلے

کئے محبت سے جو تھے پہلے
گناہ سارے معاف کر دو
جہاں بھی دیکھوں دکھائی دو تم
نظر پہ ایسا غلاف کر دو
نہ کوئی اب میرے پاس آئے
سبھی کو ایسا خلاف کر دو

پاس ہونے سے جدا اچھا ہے

پاس ہونے سے جدا اچھا ہے
ایسے مانے سے خفا اچھا ہے
عشق سب لے گیا ہے عقل و خرد 
کوئی بتلائے کہ کیا اچھا ہے
حادثے راہوں کے گھر لا ڈالے
اور سمجھا کہ ہُوا اچھا ہے

Monday 13 February 2017

روز روز آنکھوں تلے ایک ہی سپنا جلے

روز روز آنکھوں تلے 
ایک ہی سپنا جلے
رات بھر کاجل جلے 
آنکھ میں جس طرح 
خواب کا دِیا جلے
روز روز آنکھوں تلے 
ایک ہی سپنا جلے

نہ بولوں میں تو کلیجہ پھونکے جو بول دوں تو زباں جلے ہے

نہ بولوں میں تو کلیجہ پھونکے جو بول دوں تو زباں جلے ہے
سلگ نہ جاوے اگر سنے وہ جو بات میری زباں تلے ہے
لگے تو پھر یوں کہ روگ لاگے نہ سانس آوے نہ سانس جاوے
یہ عشق ہے نامراد ایسا کہ جان لیوے تبھی ٹلے ہے
ہماری حالت پہ کتنا رووے ہے آسماں بھی تُو دیکھ لیجو
کہ سرخ ہو جاویں اس کی آنکھیں بھی جیسے جیسے یہ دن ڈھلے ہے 

کاغذ پر گرتے ہی پھوٹے لفظ

کاغذ پر گرتے ہی پھوٹے لفظ
کچھ دھواں اٹھا
چنگاریاں کچھ
ایک نظم میں پھر سے آگ لگی
جلتے شہر میں بیٹھا شاعر
اس سے زیادہ کرے بھی تو کیا

Saturday 11 February 2017

داستانوں میں ڈھال دی گئی ہے

داستانوں میں ڈھال دی گئی ہے 
یوں محبت سنبھال دی گئی ہے 
سب وفا پر دلیل مانگتے تھے 
تیری میری مثال دی گئی ہے 
شہر جلنے پہ آ گیا ہو گا 
آگ کو سبز شال دی گئی ہے

قصیدہ گنگ ہے اور ریختوں کی چھٹی ہے

قصیدہ گنگ ہے اور ریختوں کی چھٹی ہے 
تو آگئی ہے تو اب تذکروں کی چھٹی ہے
ابھی تو عشقِ حقیقی کے حق میں تھے سارے 
کہ حسن پہنچا ہے اور فلسفوں کی چھٹی ہے
ہماری بستی میں چاہت بچھائی جا رہی ہے 
سو اس علاقے سے سب معجزوں کی چھٹی ہے

تجھ پہ جچتا ہے وہ نیلے والا

تجھ پہ جچتا ہے وہ نیلے والا
اس سے بڑھ کر ہے یہ پیلے والا
کان گر سرخ نہ ہوں دہراؤں 
واقعہ یاد ہے ٹیلے والا
مار ڈالے گا مجھے عشق کا دکھ 
تجھ کو یہ رنج قبیلے والا

عشق سا عشق ہوا ہے مجھ کو

اب مثالیں بھی بدل جائیں گی 
عشق سا عشق ہوا ہے مجھ کو
شرک کیوں، اس کو بھی توحید سمجھ
اک تِرا دھیان رہا ہے مجھ کو
یار دشمن، ترے معیار کی خیر 
تُو نے دنیا میں چنا ہے مجھ کو

رفتہ رفتہ ہر جگہ الفت کے افسانے گئے

رفتہ رفتہ ہر جگہ الفت کے افسانے گئے
میرا نام آتے ہی وہ محفل میں پہچانے گئے
کہکشاں گردِ سفر ہے، مہر و مہ زیرِ قدم 
وقت کے صحرا میں کتنی دور دیوانے گئے
ایک ہی منزل تھی لیکن راستے میں دور تک
شہر ان کے ساتھ، میرے ساتھ ویرانے گئے

ذرا مسکرایا جو ساقی سنبھل کے

ذرا مسکرایا جو ساقی سنبھل کے
کئی ہاتھ کانپے کئی جام چھلکے
وہ آئے مِرے پاس کانٹوں پہ چل کے
غمِ زندگی رہ گیا ہاتھ مَل کے
تصرف ہے اے وجؔد کس گلبدن کا
مہکتے ہیں اشعار تیری غزل کے

تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے

تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے
ادھر آئے شاید وہ موجِ ترنم
غزل گنگنانے کو جی چاہتا ہے
زمانہ میرا آزمایا ہوا ہے
تجھے آزمانے کو جی چاہتا ہے

خوش جمالوں کی یاد آتی ہے

خوش جمالوں کی یاد آتی ہے
بے مثالوں کی یاد آتی ہے
باعثِ رشکِ مہر و ماہ تھے جو
ان ہلالوں کی یاد آتی ہے
جن سے دنیائے دل منور تھی
ان اجالوں کی یاد آتی ہے

Friday 10 February 2017

حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا

مال حسن تھا چشمِ حسود میں آیا
حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا
ہر اک حصار سے باہر تھا زیست کا لمحہ
قضا نے قید کیا تو قیود میں آیا
جمالِ ماہِ منور کی آرزو لے کر
ستارہ شام کا شہرِ شہود میں آیا

دل مضطرب ہے اور طبیعت اداس ہے

دل مضطرب ہے اور طبیعت اداس ہے
لگتا ہے، آج دل کے کوئی آس پاس ہے
پھر تشنہ لب کھڑا ہوں سمندر کے سامنے
یہ میری پیاس ہے کہ سمندر کی پیاس ہے
کھُلتا نہیں نگاہ پہ کہ کس جگہ پہ ہوں
شہرِ طلب ہے یا کوئی دشتِ ہراس ہے

اک شہر افسوس ہے جس میں

شہرِ افسوس

اک شہرِ افسوس ہے جس میں 
یادوں کے بازار سجے ہیں 
زخموں کا سرمایہ لے کر 
لوگ یہاں پر آ جاتے ہیں 
اس شہرِ افسوس میں اکثر 
لمحے حیرت بن جاتے ہیں 

زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے

زمیں پر آسماں رکھا ہُوا ہے
مجھے بھی درمیاں رکھا ہوا ہے
چھپا کر اپنے راز لاکھوں
مجھے رازداں رکھا ہوا ہے
بِنا دیکھے اسے تا عمر چاہیں
یہ کیا امتحاں رکھا ہوا ہے

Wednesday 8 February 2017

کب کہا میں نے ہر کہیں میں ہوں

کب کہا میں نے ہر کہیں میں ہوں 
حجرۂ جاں میں جاگزیں میں ہوں
تجھ کو معلوم ہی نہیں شاید
تُو جو تُو ہے، یہ تُو نہیں، میں ہوں
مثلِ ہمزاد ساتھ ہوں تیرے
ہے جہاں تُو، وہیں وہیں میں ہوں

اک لذت گناہ مجھے کھینچتی رہی

اِک لذتِ گناہ مجھے کھینچتی رہی
اور وہ بھی بے پناہ مجھے کھینچتی رہی
دیوانہ وار کھنچتا رہا اس طرف کو میں
جادو بھری نگاہ مجھے کھینچتی رہی
ورنہ، میں کھنچنے والا نہیں تھا کبھی اُدھر
یہ تو کسی کی چاہ مجھے کھینچتی رہی

در ستارۂ دمدار کر کے وا کوئی

نذر جمال احسانی 

درِ ستارۂ دُم دار کر کے وا کوئی 
عجب ادا سے مجھے دیکھتا رہا کوئی
گواہی دے رہے ہیں خود نقوشِ پا سرِ دشت
اِدھر سے گزرا ہے پہلے بھی قافلہ کوئی
دعائیں بیچنے والے! چل اس نگر سے نکل
یہاں تو مفت بھی لیتا نہیں دعا کوئی

Tuesday 7 February 2017

افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے

افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے
بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ
ان تلخیوں میں زہر ملاتے چلے گئے
اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز
ہم زندگی کے ناز اٹھاتے چلے گئے

وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب​

وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب​
جو اس جگہ بھی نہ تُو مل سکے تو میرے نصیب​
فغانِ حق و صداقت کا مرحلہ ہے عجیب​
دبے تو بند و سلاسل اٹھے تو دار و صلیب​
تِرے خیال کا مسکن چمن چمن کا سفر​
مِری وفا کا نشیمن فقط دیارِ حبیب​

اجنبی خط و خال

اجنبی خط و خال

یہ کس نے مِری نظر کو لوٹا
ہر چیز کا حسن چھن گیا ہے
ہر شے کے ہیں اجنبی خط و خال
بڑھتے چلے جا رہے ہیں ہر سمت
موہوم سی بے رخی کے سائے
کچھ اس طرح ہو رہا ہے محسوس

بند ہو جائے مری آنکھ اگر

بند ہو جائے مِری آنکھ اگر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
یہ دریچہ ہے افق آئینہ
اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
اس دریچے سے ابھرتی دیکھی

Monday 6 February 2017

جن کے لئے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں

جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیرِ ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں، پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

چاہت کا اظہار کیا سو اپنا کام خراب ہوا

چاہت کا اظہار کِیا، سو اپنا کام خراب ہوا
اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
ساری ساری راتیں جاگے عجز و نیاز و زاری کی
تب جا کر ملنے کا اس کے، صبح کے ہوتے جواب ہوا
کیا کہیۓ مہتاب میں شب کی، وہ بھی ٹک آ بیٹھا تھا
تابِ رخ اس مہ نے دیکھی سو درجے بے تاب ہوا

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا
برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا
اسباب مہیا تھے سب مرنے ہی کے لیکن
اب تک نہ موئے ہم جو اندیشہ کفن کا تھا
بلبل کو مؤا پایا کل پھولوں کی دکاں پر
اس مرغ کے بھی جی میں کیا شوق چمن کا تھا

ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے

ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے
اچھے ہوتے نہیں جگر خستے
ہنستے کھینچا نہ کیجیۓ تلوار
ہم نہ مر جائیں ہنستے ہی ہنستے
شوق لکھتے قلم جو ہاتھ آئی
لکھتے کاغذ کے دستے کے دستے

Saturday 4 February 2017

وہی جنوں ہے وہی کوچہ ملامت ہے

وہی جنوں ہے وہی کوچۂ ملامت ہے
شکستِ دل پہ بھی عہدِ وفا سلامت ہے
یہ ہم جو باغ و بہاراں کا ذکر کرتے ہیں
تو مدعا وہ گلِ تر، وہ سرو قامت ہے
بجا یہ فرصتِ ہستی مگر دلِ ناداں
نہ یاد کر کے اسے بھولنا قیامت ہے

آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی

آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی
دیکھو کبھی مقتل، کبھی گلزار لگے ہے
تصویر عجب کوچۂ دلدار کی نکلی
آنکھوں کی تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہووے
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی

چاک پیراہنی گل کو صبا جانتی ہے

چاک پیراہنئ گل کو صبا جانتی ہے
مستئ شوق کہاں بندِ قبا جانتی ہے
ہم تو بدنامِ محبت تھے سو رسوا ٹھہرے
ناصحوں کو بھی مگر خلقِ خدا جانتی ہے
کون طاقوں پہ رہا، کون سرِ راہ گزار
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے

زندگی اور طرح اب تو گزاری جائے

زندگی اور طرح اب تو گزاری جائے
عشق کی جیت کے بازی کوئی ہاری جائے
آج پھر ہے لب و رخسار پہ گل رنگ بہار
آئیے! آپ کی تصویر اتاری جائے
اب کوئی اس سے تعلق، نہ مراسم، نہ قرار
اب اگر جان یہ جاتی ہے ہماری جائے

Friday 3 February 2017

بشر کی طاقت انکار کم نہ ہو جائے

بشر کی طاقتِ انکار

بشر کی طاقتِ انکار کم نہ ہو جائے
تمہاری رونقِ دربار کم نہ ہو جائے
تم اس قدر نہ بڑھاؤ رسومِ عجز و نیاز
طوافِ کعبہ کا معیار کم نہ ہو جائے
تم اتنا بیش نہ کر دو نصابِ ذکر و سجود
مقامِ عظمتِ کردار کم نہ ہو جائے

فضا اعظمی

ہوا منشور نو جاری حقوق نوع نسواں کا

حقوقِ نسواں پر ایک نظم

یہ تھا ادبار عورت پر کہ جب پیغام حق آیا 
خواتین کے لیے انصاف کا پہلا سبق آیا 
ہوا نازل صحیفہ آخری توقیر انسان کا 
دکھی عورت کی خاطر امن کا پیغامبر آیا 
حرا کے غار سے روشن ہوا خورشید ایمان کا 
ہوا منشورِ نو جاری حقوقِ نوعِ نسواں کا

فضا اعظمی

یہ کیا سچ ہے کہ تم قرآن سے شادی رچاتے ہو

‘اقتباس از ’خاک میں صورتیں

یہ کیا سچ ہے کہ تم قرآن سے شادی رچاتے ہو
اور اس صورت سے تم اپنی زمینداری بچاتے ہو
تم اپنی عاقبت اس طرح سے برباد کرتے ہو
کلام اللہ کی تم اس طرح تحقیر کرتے ہو
کہاں نور الٰہی اور کہاں قرآن کی عظمت
کہاں یہ ملحدانہ سوچ، یہ افرادِ بد طینت

فضا اعظمی

کہ جس آغوش میں انسان کی تقدیر پلتی ہے

عورت کی عظمت کے حوالے سے ایک نظم

کہ جس آغوش میں انسان کی تقدیر پلتی ہے
کہ جن ہاتھوں سے ملک اور قوم کی تصویر بنتی ہے
کہ جس مکتب میں رجحانات کی تشکیل ہوتی ہے
کہ جس ماحول میں اخلاق کی تعمیر ہوتی ہے
اسے معتوب اور معزول کر دینے کی سازش ہے
اسے معدوم اور مفقود کر دینے کی سازش

فضا اعظمی

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
دو آڑھے ترچھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں
پہرا بٹھا دیا ہے یہ قیدِ حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں
جاتے کدھر ہو تم صفِ محشر میں خیر ہے
دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں

Thursday 2 February 2017

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی
نظر کیا کیمیا تھی رنگ چہروں سے اڑا لائی
خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا، وہ اک خنجر اٹھا لائی
نہ حسرت ہی نکلتی ہے نہ دل کو آگ لگتی ہے
مِری ہستی مِرے دامن میں کیا کانٹا لگا لائی

Wednesday 1 February 2017

صرف یہ درد دل نشیں ہوتا

صرف یہ درد دل نشیں ہوتا
جب کہوں درد اب نہیں ہوتا
خود کبھی راہ میں بھٹکتا ہوں
یا کبھی وہ نہ ہم نشیں ہوتا
آنکھ کہتی سراب ہے سارا
دل کو ہی پر نہیں یقیں ہوتا

دیے ہیں یا جگنو یا دل جل رہے ہیں

دیے ہیں یا جگنو یا دل جل رہے ہیں 
نگر میرا ظالم سرابوں بھرا ہے
دلیلوں میں سارے ہمیں مات دے دیں 
رقیبوں کا سینہ کتابوں بھرا ہے
یہاں کوئی وقعت کہاں ہے ہماری 
ہر اک آسمان آفتابوں بھرا ہے

صحرا سے آنے والی ہواؤں میں ریت ہے

صحرا سے آنے والی ہواؤں میں ریت ہے 
ہجرت کروں گا گاؤں سے گاؤں میں ریت ہے
اے قیس! تیرے دشت کو اتنی دعائیں دیں
کچھ بھی نہیں ہے میری دعاؤں میں ریت ہے
صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو
ہاتھوں میں پھول ہیں میرے پاؤں میں ریت ہے

تو نہیں جانتی نیند کی گولیاں کیوں بنائی گئیں

تُو نہیں جانتی 
نیند کی گولیاں کیوں بنائی گئیں
لوگ کیوں رات کو اٹھ کے روتے ہیں سوتے نہیں
تُو نے اب تک کوئی شب اگر جاگتے بھی گزاری 
تو وہ باربی نائیٹ تھی 
تجھ کو کیسے بتاؤں 

یہ ظلم مجھ سے نہیں ہو سکا نہیں کیا ہے

یہ ظلم مجھ سے نہیں ہو سکا، نہیں کیا ہے
خیال میں بھی تجھے بے ردا نہیں کیا ہے
یہ بدتمیز اگر تجھ سے ڈر رہے ہیں تو پھر
تجھے بگاڑ کے میں نے برا نہیں کیا ہے
میں ایک شخص کو ایمان جانتا ہوں تو کیا
خدا کے نام پہ لوگوں نے کیا نہیں کیا ہے

یہ تماشہ سا کیا لگا ہوا ہے

یہ تماشا سا کیا لگا ہوا ہے 
چوک میں آئینہ لگا ہوا ہے
مرضیوں کا مرض ہے چاروں طرف
جس کو دیکھو خدا لگا ہوا ہے
ہم بھی کوشش میں ہیں کہ جی لگ جائے
جس طرح آپ کا لگا ہوا ہے

آج تو خود سے لڑ پڑا ہوں میں

آج تو خود سے لڑ پڑا ہوں میں
خواب کیوں دیکھتا رہا ہوں میں
تم جو بے حد قریب ہو میرے
کیا تمہارا بھی مسئلہ ہوں میں
ایک بس ایک کی تمنا میں
کیسے برباد ہو گیا ہوں میں