Monday 20 February 2017

آنسو سارے زخم پرانے دھو سکتا ہے

آنسو سارے زخم پرانے دھو سکتا ہے
پانی ہی پانی کے جیسا ہو سکتا ہے
اِن آنکھوں کی گہرائ سے ڈر جاتی ہوں
کاجل بھی آنکھوں میں جا کر کھو سکتا ہے
رات کو دیکھا خواب کئی تھے خواب کے اندر
خواب میں کوئی کتنے خواب سمو سکتا ہے
جانے کیسی آنکھ تھی بنجر صحرا جیسی
کوئی بنا اشکوں کے کیسے رو سکتا ہے
چاند تھکن سے چور ندی میں چھپ جائے تو
بادل سے بھی آنکھ بچا کر سو سکتا ہے
ساحل سے سورج کا رشتہ جیسا بھی ہو
ایک سمندر کتنے سورج بو سکتا ہے
کچھ تو وصل کی اوس میں بھیگیں آپ بھی صاحب
کب تک ساون دامنِ ہجر بھگو سکتا ہے
راہگزر کے نقشِ قدم آنکھوں میں رکھنا
منزل تک آ کر بھی رستہ کھو سکتا ہے
رات گئی سو بات گئی اب چھوڑ بھی یارا 
پچھلی باتوں پر تُو کتنا رو سکتا ہے
آئینے سے روز الجھ پڑتی ہوں سیماؔ
کوئی خود پر کیسے عاشق ہو سکتا ہے

سیما نقوی

No comments:

Post a Comment