عشق کیا اور کیا ہوس، بس بس
چھوڑ دے تُو یہ بحث، بس بس بس
کچھ نشاں تو کمر کا رہنے دے
یوں نہ بندِ قبا کو کس، بس بس
ہو گیا راکھ ، جل کے ہاتھ مِرا
لے گیا تجھ سے چھین کر وہ تجھے
خود سے ملنے کو اب ترس، بس بس
جوں ہی دل پر پڑا ہے تیرِِ نگاہ
کہہ اٹھا میں بہ یک نفس، بس بس
تیرے کُڑھنے سے کچھ نہیں ہونا
یوں نہ کر فکرِ پیش و پس، بس بس
مرغِ بے بال و پر پہ ظلم نہ ڈھا
کھول دے اب درِ قفس، بس بس
کچھ بھی بدلا تھا اور نہ بدلے گا
یعنی پہلے، نہ اس برس، بس بس
ساحر اس دل پہ میں نے دستک دی
تھی یہی میری دسترس، بس بس
پرویز ساحر
No comments:
Post a Comment