Wednesday 8 February 2017

در ستارۂ دمدار کر کے وا کوئی

نذر جمال احسانی 

درِ ستارۂ دُم دار کر کے وا کوئی 
عجب ادا سے مجھے دیکھتا رہا کوئی
گواہی دے رہے ہیں خود نقوشِ پا سرِ دشت
اِدھر سے گزرا ہے پہلے بھی قافلہ کوئی
دعائیں بیچنے والے! چل اس نگر سے نکل
یہاں تو مفت بھی لیتا نہیں دعا کوئی
ہے یوں تو دہر میں کتنوں سے آشنائی مِری
پر، آئینے سا نہیں دیر آشنا کوئی
اسی لیے تو ہوں ساحؔر بجھا بجھا سا میں 
مِری طرح کا نہیں اور دل جلا کوئی

پرویز ساحر 

No comments:

Post a Comment