Monday, 6 February 2017

جن کے لئے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں

جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیرِ ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں، پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لختِ دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے، جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میؔر بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں، حیران نکلتے ہیں

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment