جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیرِ ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں، پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لختِ دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے، جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میؔر بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں، حیران نکلتے ہیں
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment