Saturday 11 February 2017

تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے

تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے
ادھر آئے شاید وہ موجِ ترنم
غزل گنگنانے کو جی چاہتا ہے
زمانہ میرا آزمایا ہوا ہے
تجھے آزمانے کو جی چاہتا ہے
وہی بات رہ رہ کے یاد آ رہی ہے
جسے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
لبوں پر میرے کھیلتا ہے تبسم
جب آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
کئی مرتبہ دل پہ بجلی گری ہے
مگر مسکرانے کو جی چاہتا ہے
تکلّف نہ کر آج برقِ تجلّی
نشیمن جلانے کو جی چاہتا ہے

سکندر علی وجد

No comments:

Post a Comment