تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے
ادھر آئے شاید وہ موجِ ترنم
غزل گنگنانے کو جی چاہتا ہے
زمانہ میرا آزمایا ہوا ہے
وہی بات رہ رہ کے یاد آ رہی ہے
جسے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
لبوں پر میرے کھیلتا ہے تبسم
جب آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
کئی مرتبہ دل پہ بجلی گری ہے
مگر مسکرانے کو جی چاہتا ہے
تکلّف نہ کر آج برقِ تجلّی
نشیمن جلانے کو جی چاہتا ہے
سکندر علی وجد
No comments:
Post a Comment