Monday, 27 February 2017

چراغ ہجر جلا ہے جلا رہے گا دوست

چراغِ ہجر جلا ہے جلا رہے گا دوست 
ہمارا چہرہ بجھا ہے، بجھا رہے گا دوست
شکستگاں کو ملے گا شکستگاں کا لہو
یہ سلسلہ سرِ مقتل بنا رہے گا دوست 
فنا پذیر ہے دنیا،۔ فنا پذیر ہیں لوگ 
خدا رہا ہے ہمیشہ، خدا رہے گا دوست
کوئی تمنا سلگتی رہے گی دل کے دروں 
کسی نشے سے بدن توٹتا رہے گا دوست
مِرے وجود کے ذرے اڑے تو دیکھنا تم 
جو شہر کا نہ ہوا، دشت کا رہے گا دوست
اگرچہ وقت مجھے دے رہا ہے ہجر سفر 
مگر ہمیشہ ترا سامنا رہے گا دوست 
تُو برملا مجھے چھُو، برملا محبت کر 
تُو برملا ہے مِرا برملا رہے گا دوست
مِرے بغیر تِرے پاس کیا ہے سوچ ذرا
مِرے بغیر تِرے پاس کیا رہے گا دوست 
حصارِ بے بسی میں جو مجھے لگانا ہے 
وہ قہقہہ تِرے دل میں بسا رہے گا دوست
میں خامشی سے تجھے آخری صدا دوں گا 
تُو خامشی سے مجھے دیکھتا رہے گا دوست 

فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment