Friday 16 August 2019

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شامِ ملاقات سے خوف آتا ہے
ماند پڑتے ہوئے جذبات سے خوف آتا ہے
عمرِ آخر کی شروعات سے خوف آتا ہے
پھونکتا جاتا ہے یہ شعلۂ تخلیق مجھے
اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے

ہمارے حق میں کسی کے جفر رمل کوئی نئیں

ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں
جو اہلِ دل کے مسائل ہیں، ان کا حل کوئی نئیں
عجیب شہر میں میرا جنم ہوا ہے جہاں 
بدی کا حل کوئی نئیں، نیکیوں کا پھل کوئی نئیں
مِرے لیے نہ رکے کوئی موجِ استقبال
میں رزقِ لمحۂ حاضر ہوں، میرا کل کوئی نئیں

جس میں ہو پائیں گرفتار وہ پل ڈھونڈتے ہیں

جس میں ہو پائیں گرفتار وہ پَل ڈھونڈتے ہیں
آج تک ہم تِری آنکھوں کا بدل ڈھونڈتے ہیں
عہدِ بارود! کچھ احساس مِرے بچوں کا
کیاریاں سِینچتے پھرتے ہیں، کنول ڈھونڈتے ہیں
فلسفوں نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا ہم کو
اب کوئی مختلف اندازِ عمل ڈھونڈتے ہیں

Saturday 10 August 2019

یوں بڑی دیر سے پیمانہ لئے بیٹھا ہوں

یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں 
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں 
آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا 
شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں 
مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو 
بول سکتا ہوں، مگر ہونٹ سیے بیٹھا ہوں 

بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے

بستی میں ہے وہ سناٹا، جنگل مات لگے 
شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے
مٹھی بند کئے بیٹھا ہوں کوئی دیکھ نہ لے 
چاند پکڑنے گھر سے نکلا، جگنو ہات لگے
تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے 
آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے

زخموں کو مرہم کہتا ہوں قاتل کو مسیحا کہتا ہوں

زخموں کو مرہم کہتا ہوں قاتل کو مسیحا کہتا ہوں
جو دل پر گزرا کرتی ہے میں پردا پردا کہتا ہوں
زلفوں کو گھٹائیں کہتا ہوں رخسار کو شعلہ کہتا ہوں
تم جتنے اچھے لگتے ہو میں اس سے اچھا کہتا ہوں
اب رِیت یہی ہے دنیا کی تم بھی نہ بنو بیگانہ کہیں
الزام نہیں دھرتا تم پر اک جی کا دھڑکنا کہتا ہوں

چاندنی تھی کہ غزل تھی کہ صبا تھی کیا تھا

چاندنی تھی کہ غزل تھی کہ صبا تھی، کیا تھا
میں نے ایک بار تیرا نام سنا تھا، کیا تھا
گھر میں تُو بھی تو نہیں جو کوئی برتن ٹوٹے
یہ جو کمرے میں ابھی شور ہوا تھا، کیا تھا
خودکشی کر کے بھی بستر سے اٹھا ہوں زندہ
میں نے کل رات میں جو زہر پیا تھا، کیا تھا