Saturday 10 August 2019

زخموں کو مرہم کہتا ہوں قاتل کو مسیحا کہتا ہوں

زخموں کو مرہم کہتا ہوں قاتل کو مسیحا کہتا ہوں
جو دل پر گزرا کرتی ہے میں پردا پردا کہتا ہوں
زلفوں کو گھٹائیں کہتا ہوں رخسار کو شعلہ کہتا ہوں
تم جتنے اچھے لگتے ہو میں اس سے اچھا کہتا ہوں
اب رِیت یہی ہے دنیا کی تم بھی نہ بنو بیگانہ کہیں
الزام نہیں دھرتا تم پر اک جی کا دھڑکنا کہتا ہوں
اربابِ چمن جو کہتے ہیں وہ نام مجھے معلوم نہیں
جس شاخ پہ کوئی پھول نہ ہو میں اس کو تمنا کہتا ہوں
قیصرؔ وہ نوا لاحاصل ہے جو آ کے لبوں پر لہرائے
چُھو لے جو دلوں کی گہرائی میں اس کو نغمہ کہتا ہوں

قیصر الجعفری 

No comments:

Post a Comment