Saturday 10 August 2019

یوں بڑی دیر سے پیمانہ لئے بیٹھا ہوں

یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں 
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں 
آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا 
شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں 
مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو 
بول سکتا ہوں، مگر ہونٹ سیے بیٹھا ہوں 
لوگ بھی اب مِرے دروازے پہ کم آتے ہیں 
میں بھی کچھ سوچ کے زنجیر دئیے بیٹھا ہوں 
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے 
میں ابھی تک تِری تصویر لیے بیٹھا ہوں 
کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصر 
میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں

قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment