یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں
آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا
شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں
مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو
لوگ بھی اب مِرے دروازے پہ کم آتے ہیں
میں بھی کچھ سوچ کے زنجیر دئیے بیٹھا ہوں
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے
میں ابھی تک تِری تصویر لیے بیٹھا ہوں
کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصر
میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں
قیصر الجعفری
No comments:
Post a Comment