Saturday 10 August 2019

چاندنی تھی کہ غزل تھی کہ صبا تھی کیا تھا

چاندنی تھی کہ غزل تھی کہ صبا تھی، کیا تھا
میں نے ایک بار تیرا نام سنا تھا، کیا تھا
گھر میں تُو بھی تو نہیں جو کوئی برتن ٹوٹے
یہ جو کمرے میں ابھی شور ہوا تھا، کیا تھا
خودکشی کر کے بھی بستر سے اٹھا ہوں زندہ
میں نے کل رات میں جو زہر پیا تھا، کیا تھا
اب کے بچھڑے ہیں تو لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا
میرا دل تھا کہ تیرا عہد وفا تھا، کیا تھا
ضد نہیں ہے کہ اسے تُو بھی تعلق سمجھے
وہ جو ایک دن مجھے دیوانہ کہا تھا، کیا تھا
تم تو کہتے تھے، خدا تم سے خفا ہے قیصر
ڈوبتے وقت جو ایک ہاتھ بڑھا تھا، کیا تھا

قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment