Friday 16 August 2019

جس میں ہو پائیں گرفتار وہ پل ڈھونڈتے ہیں

جس میں ہو پائیں گرفتار وہ پَل ڈھونڈتے ہیں
آج تک ہم تِری آنکھوں کا بدل ڈھونڈتے ہیں
عہدِ بارود! کچھ احساس مِرے بچوں کا
کیاریاں سِینچتے پھرتے ہیں، کنول ڈھونڈتے ہیں
فلسفوں نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا ہم کو
اب کوئی مختلف اندازِ عمل ڈھونڈتے ہیں
ایسا کرتے ہیں الٹ دیتے ہیں زنبیلِ حیات
اور اس میں سے کوئی کام کا پَل ڈھونڈتے ہیں
لے گیا پھر کہیں اسلوب کا دھوکا اس کو
کس خرابے میں بھٹکتی ہے غزل ڈھونڈتے ہیں

رحمان حفیظ

No comments:

Post a Comment