جس میں ہو پائیں گرفتار وہ پَل ڈھونڈتے ہیں
آج تک ہم تِری آنکھوں کا بدل ڈھونڈتے ہیں
عہدِ بارود! کچھ احساس مِرے بچوں کا
کیاریاں سِینچتے پھرتے ہیں، کنول ڈھونڈتے ہیں
فلسفوں نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا ہم کو
ایسا کرتے ہیں الٹ دیتے ہیں زنبیلِ حیات
اور اس میں سے کوئی کام کا پَل ڈھونڈتے ہیں
لے گیا پھر کہیں اسلوب کا دھوکا اس کو
کس خرابے میں بھٹکتی ہے غزل ڈھونڈتے ہیں
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment