Friday, 16 August 2019

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے

پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شامِ ملاقات سے خوف آتا ہے
ماند پڑتے ہوئے جذبات سے خوف آتا ہے
عمرِ آخر کی شروعات سے خوف آتا ہے
پھونکتا جاتا ہے یہ شعلۂ تخلیق مجھے
اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے
موت کا ڈر بھی بڑی شے ہے، سرِ دست مگر
زندگانی کے طلسمات سے خوف آتا ہے 
ق
نئی تقریبِ مواخات سے خوف آتا ہے
مجھے آئندہ فسادات سے خوف آتا ہے
اب تو مل کر یہ دعا تک بھی نہیں کر سکتے
اب تو اِس ہاتھ کو اُس ہاتھ سے خوف آتا ہے
ایسے ٹھہرے ہوئے ماحول میں رحمان حفیظ
ان گزرتے ہوئے لمحات سے خوف آتا ہے

رحمان حفیظ

No comments:

Post a Comment