پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شامِ ملاقات سے خوف آتا ہے
ماند پڑتے ہوئے جذبات سے خوف آتا ہے
عمرِ آخر کی شروعات سے خوف آتا ہے
پھونکتا جاتا ہے یہ شعلۂ تخلیق مجھے
موت کا ڈر بھی بڑی شے ہے، سرِ دست مگر
زندگانی کے طلسمات سے خوف آتا ہے
ق
نئی تقریبِ مواخات سے خوف آتا ہے
مجھے آئندہ فسادات سے خوف آتا ہے
اب تو مل کر یہ دعا تک بھی نہیں کر سکتے
اب تو اِس ہاتھ کو اُس ہاتھ سے خوف آتا ہے
ایسے ٹھہرے ہوئے ماحول میں رحمان حفیظ
ان گزرتے ہوئے لمحات سے خوف آتا ہے
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment