Tuesday 31 December 2019

تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھاۓ تو کیا کروں

دل سے تِرا خیال نہ جائے تو کیا کروں
میں کیا کروں کوئی نہ بتائے تو کیا کروں
امید دل نشیں سہی، دنیا حسیں سہی
تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھائے تو کیا کروں
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کمبخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں ​
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو ​
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں ​
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست ​
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں​

چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی

عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دُشنام کا جواب نہ سُوجھا بجُز سلام
ظاہر مِرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

Monday 30 December 2019

جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو

جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان، ذرا دیکھ تو لو
پھر مقرر کوئی سرگرم سرِ منبر ہے
کس کے ہے قتل کا سامان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران، ذرا دیکھ تو لو

کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے

وہ ڈھل رہا ہے تو یہ بھی رنگت بدل رہی ہے
زمین سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے
جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں، لیکن
مِرے لہو سے تمہاری دیوار گَل رہی ہے

گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا

بڑی رونق تھی اس گھر میں، یہ گھر ایسا نہیں تھا
گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا
جہاں کچھ شیریں باتیں تھیں وہیں کچھ تلخ باتیں تھیں
مگر ان تلخ باتوں کا اثر ایسا نہیں تھا
انہی شاخوں پہ گل تھے برگ تھے کلیاں تھیں غنچے تھے
یہ موسم جب نہ ایسا تھا، شجر ایسا نہیں تھا

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تو وہ بات لکھ

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تُو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو روز ہر جگہ کی ہے، وہ واردات لکھ

Sunday 29 December 2019

اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

مِرے دریا جب نیلام ہوئے
اور بنجر میرے کھیت ہوئے
اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

مِرے لشکر کو جب مات ہوئی
اور دیس مِرا تقسیم ہوا
اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا

کاش ہم نہیں لڑتے

کاش ہم نہیں لڑتے
آس پاس والوں سے
اپنی سب کمائی یوں 
لشکری بنانے پر
خرچ ہم نہیں کرتے
آج اپنے آنگن میں
بھوک بھی نہیں ہوتی

Saturday 28 December 2019

موچی ہی ہوں

موچی ہی ہوں

شبدوں کے اک چوک میں بیٹھا
کیفیت کی دری بچھائے
پھٹے پرانے جذبے گانٹھتا رہتا ہوں
جب آنسو میلے ہو جائیں
نظم کی اجلی پالش سے چمکا دیتا ہوں

نیکیاں اور بھلائیاں مولا

نیکیاں اور بھلائیاں مولا
سب کی سب خود نمائیاں مولا
تُو تو سب جانتا ہے، پھر تجھ کو
چاہییں کیوں صفائیاں مولا
تُو کے پہرے پہ آ کے دیکھا تو
میں کی آنکھیں بھر آئیاں مولا

غیر کے ہاتھ میں ڈوری کو تھمایا جائے

غیر کے ہاتھ میں، ڈوری کو تھمایا جائے
میں ہوں کٹھ پُتلی، مجھے خوب نچایا جائے
مجھ پہ دشمن کو ملے غلبہ، یہ ناممکن ہے
مجھ کو مغلوب بھی، اپنوں سے کرایا جائے
بن کے دیمک مِرے اپنے ہی مجھے چاٹیں ہیں
کیوں کسی غیر پہ، الزام لگایا جائے

ہر اک جابر سے انکاری رہے گی

ہر اک جابر سے انکاری رہے گی
محبت حمد ہے جاری رہے گی 
یونہی نادِ علی پڑھتا رہوں گا
میری للکار دو دھاری رہے گی 
ہم ایسے کہنے والے جب تلک ہیں
غزل بندوق پر بھاری رہے گی 

دوراہے پر بچھڑنا ہے تم کو​ بچھڑ جاؤ لیکن

دوراہے پر

بچھڑنا ہے تم کو​
بچھڑ جاؤ، لیکن​
کسی سنگِ الزام سے تو نوازو​
 اگر زندگی کے کسی موڑ پر ہم ملیں​
تو ہمارے لبوں پر​

Friday 27 December 2019

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

واں پہنچ کر جو غش آتا پۓ ہم ہے ہم کو 
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو 
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے 
کس قدر ذوقِ گرفتارئ ہم ہے ہم کو 
ضعف سے نقشِ پۓ مور، ہے طوقِ گردن 
تِرے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو 

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی 
نہ کہو گر برا کرے کوئی 
روک لو گر غلط چلے کوئی 
بخش دو گر خطا کرے کوئی 
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند 
کس کی حاجت روا کرے کوئی 

Thursday 26 December 2019

میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں

میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں 
تو اپنوں ہی کا لشکر دیکھتا ہوں 
میں دنیا اپنے اندر دیکھتا ہوں 
یہیں پہ سارا منظر دیکھتا ہوں 
مجھے اس جرم میں اندھا کیا ہے 
کہ بینائی سے بڑھ کر دیکھتا ہوں 

کم قامتان شہر برابر کے ہو گئے

آوارگانِ شوق سبھی گھر کے ہو گئے
اک ہم ہی ہیں کہ کوچۂ دلبر کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ تجھ سے بچھڑنا پڑا ہمیں
پھر یوں لگا کہ شہر سمندر کے ہو گئے
کچھ دائرے تغیر دنیا کے ساتھ ساتھ
ایسے کھنچے کہ ایک ہی محور کے ہو گئے

نہ فاصلے کوئی رکھنا نہ قربتیں رکھنا

نہ فاصلے کوئی رکھنا، نہ قربتیں رکھنا
بس اب بقدرِ غزل اس سے نسبتیں رکھنا
یہ کس تعلقِ خاطر کا دے رہا ہے سراغ
کبھی کبھی تِرا مجھ سے شکایتیں رکھنا
فضائے شہر میں اب کے بڑی کدورت ہے
بہت سنبھال کے اپنی محبتیں رکھنا

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ
مٹی ہیں تو پل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ
مہلت ہے تو جی بھر کے کرو سیر یہاں کی
پھر ایسا خرابہ بھی کہاں پائیں گے ہم لوگ
بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھاؤں، میسر
ڈھلتا ہوا سایہ ہیں گزر جائیں گے ہم لوگ

Wednesday 25 December 2019

سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی

دل کیا بجھا دھوئیں میں اٹا ہے جہان بھی
سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی
سوچوں کو بھی فضا نے اپاہج بنا دیا
بیساکھیاں لگائے ہوئے ہے اڑان بھی
آواز کے چراغ جلا تو دئیے، مگر
لو کی طرح بھڑکنے لگی ہے زبان بھی

رات بہت ہی کالی ہے

رات بہت ہی کالی ہے
اس کا مطلب ہے گویا
صبح بھی ہونے والی ہے
منصف بھی اب خونی
مجرم بھی قانونی
اب انصاف بھی گالی ہے
رات بہت ہی کالی ہے

اٹھو لوگو سنبھلنے کا وقت آ گیا

اٹھو لوگو سنبھلنے کا وقت آ گیا
ظلم کی رات ڈھلنے کا وقت آ گیا
باندھ لو اب سروں سے کفن باندھ لو
پل صراطوں پہ چلنے کا وقت آ گیا
بات چہرے بدلنے سے بنتی نہیں
پورا ڈھانچہ بدلنے کا وقت آ گیا

میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا

میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا

پرانے رشتوں کی خوش گمانی سے مل رہے ہیں

پرانے رشتوں کی خوش گمانی سے مل رہے ہیں
ہم ایک دشمن کی مہربانی سے مل رہے ہیں
ہماری اک دوسرے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے
ہم ایک دوجے سے جس روانی سے مل رہے ہیں
سلگ رہے ہیں پرانی تصویر کے کنارے
ہمارے جسموں کے رنگ پانی سے مل رہے ہیں

جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا

جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا
تم کو تمہارے عشق کا طعنہ نہیں دیا گیا
جتنا بھرا ہوا تھا وہ اتنا ہی پرسکون تھا
دریا کو آبشار کا لہجہ نہیں دیا گیا
جاتے ہوئے فقیر نے کتنی دعائیں دیں ہمیں
ہم سے تو ایک وقت کا کھانا نہیں دیا گیا

کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے

کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے
اسے دل سے لگا کے فاتحانہ چھوڑ دیں گے
کسی کے دیکھ لینے جاں بہ لب ہونے سے پہلے
پلٹ جائیں گے اور یہ شاخسانہ چھوڑ دیں گے
محبت عمر بھر تم سے کریں گے، اور تم کو
بزرگوں کے کہے پر عاجزانہ چھوڑ دیں گے

تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر

تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر
تبصرہ کر رہے ہیں لوگ اللہ تِری خدائی پر
نوکری ڈھونڈنے ادھار لے کے چلا تو جاؤں میں
باتیں کریں گے سارے لوگ بوجھ پڑے گا بھائی پر
گاؤں کے لوگ آج بھی اس کو امیری کہتے ہیں
کھانا الگ چٹائی پر، پڑھنا الگ چٹائی پر

جو تجھ کو پسند آئے وہ جوہر نہیں رکھتے

جو تجھ کو پسند آئے وہ جوہر نہیں رکھتے
ہم لوگ مگر راہ میں پتھر نہیں رکھتے
اک امن میسر ہو تو دنیا ہے غنیمت
اور امن کی بنیاد یہ لشکر نہیں رکھتے
جب کچھ نہ رہا پاس تو احساس ہوا ہے
دستار کمینوں کے سروں پر نہیں رکھتے

Tuesday 24 December 2019

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
موت کے ساتھ چلتا رہا مقبرہ
گھر گِرے تو سبھی لوگ چپ چاپ تھے
کتنے طوفاں اٹھے جب گِرا مقبرہ
میری گستاخیاں حد سے بڑھتی گئیں
تیرے افکار کو لکھ دیا مقبرہ

Monday 23 December 2019

رات کی زلفیں برہم برہم

رات کی زلفیں برہم برہم
درد کی لَو ہے مدہم مدہم
میرے قصے گلیوں گلیوں
تیرا چرچا عالم عالم
پتھر پتھر عشق کی راتیں
حسن کی باتیں ریشم ریشم

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا

عجیب دکھ ہے

عجیب دکھ ہے

تجھے خبر ہے 
جو کوئی لہجہ بدل رہا ہو 
کسی کے دل سے نکل رہا ہو
تو ایسا لگتا ہے کوئی سنگدل 
کسی بھی دکھتی ہوئی سی رگ کو 

یاد کا موسم

یاد کا موسم

سوچ کے بے کنار صحرا میں
دُھول اڑاتا ہے
یاد کا موسم 
اپنی بے صرفہ آنکھ ایسے میں
زندگی کے ورق الٹتی ہے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے

خطاب آنسو، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
ہو کربلا یا صلیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے
ترے توسط سے جو ملا ہے، خوشی ہوئی ہے
پر اس خوشی میں، رقیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے
یہ پڑھنے والے بھی فرق تھوڑا سا جان جائیں
ادب خوشی ہے، ادیب دکھ ہے، عجیب دکھ ہے

Friday 20 December 2019

معمولات روز رات کو اٹھ کر ایک گھر بناتا ہوں

معمولات

روز رات کو اٹھ کر
خواہشوں کے گارے سے
ایک گھر بناتا ہوں
اور ٹوٹ جاتا ہوں
ایک کام کرنا ہے
ایک نظم لکھنی ہے

جیون سے سمجھوتہ بھی تو ہو سکتا ہے​

سمجھوتہ​

آؤ ہم اس عشق کا کوئی نام رکھیں
کچھ سپنے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو
صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے
اور کچھ بندھن ایسے بھی تو ہوتے ہیں
جن کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے
پیڑ کے پتے گر جائیں تو

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت​
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت​
مِری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو​
مِرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت​
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا، ورنہ​
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت​

یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے

یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے
نئی اداسی کے نام ہونے کے واسطے ہے
ہمارے کردار جانتے ہیں کسی بھی پل میں
ہمارا قصہ تمام ہونے کے واسطے ہے
کوئی سماعت رکھی ہوئی ہے مِرے بدن میں
کوئی خموشی کلام ہونے کے واسطے ہے

Thursday 19 December 2019

ایسی ہمت نہ اب عطا کیجے

ایسی ہمت نہ اب عطا کیجے
جو کہے، جائیے خطا کیجے
گر نباہیں گے تو، مِلا کیجے
راہ ورنہ یہیں جدا کیجے
اک تو دل میں انہیں جگہ دیجے
پھر کرایہ بھی خود ادا کیجے

ساتھ ایسے کو ساتھ کیا کہنا

ساتھ ایسے کو ساتھ کیا کہنا
ساتھ رہنا، مگر جدا رہنا
گھُٹ رہا ہے اسی لباس میں دَم
جو بہت شوق سے تھا کل پہنا
سب کو لگتا ہے اس کہانی میں
اس کا کردار ہے سِتم سہنا

درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں

درد پرانا آنسو مانگے، آنسو کہاں سے لاؤں
روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمہلاتا جاؤں
میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے
ایک پلک کو اندر جاؤں، باہر بھاگا آؤں
سارے موتی جھوٹے نکلے، سارے جادو ٹونے
میری خالی آنکھو بولو، اب کیا خواب سجاؤں

حملہ آور کوئی عقب سے ہے

حملہ آور کوئی عقب سے ہے
یہ تعاقب میں کون کب سے ہے
شہر میں خواب کا رواج نہیں
نیند کی ساز باز سب سے ہے
لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں
وقت اکیلا اسی سبب سے ہے

Sunday 15 December 2019

روح گر نوحہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے

روح گر نوحہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے 
دل کو احساسِ زیاں ہو تو غزل ہوتی ہے 
محفلِ ماہ وشاں میں تو غزل ہو نہ سکی 
بزمِ آشفتہ سراں ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف آنکھوں میں نمی سے نہ بنے گی کوئی بات 
ایک دریا سا رواں ہو تو غزل ہوتی ہے 

کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں

کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مسلسل قتل ہونے میں بھی اک وقفہ ضروری ہے
سرِ مقتل ہمِیں کو، پِھر پکارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشورِ ستم، لیکن اسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اتارا جا رہا ہے کیوں

Saturday 14 December 2019

کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا

کیسا ماتم، کیسا رونا مٹی کا
ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا 
مر کر بھی کب اس سے رشتہ ٹوٹے گا
میرا ہونا بھی ہے ہونا مٹی کا 
اک دن مٹی اوڑھ کے مجھ کو سونا ہے
کیا غم جو ہے آج بچھونا مٹی کا

خواب آنکھوں میں سجانا چھوڑ دے

خواب آنکھوں میں سجانا چھوڑ دے
ریت پہ دیوار اٹھانا چھوڑ دے
چھوڑ دے اس بے وفا کی آرزو
پتھروں سے دل لگانا چھوڑ دے
ذہن کہتا ہے زمانے کو بدل
دل یہ کہتا ہے زمانہ چھوڑ دے

آندھیوں میں اک دیا جلتا ہوا رہ جائے گا

آندھیوں میں اک دِیا🪔 جلتا ہوا رہ جائے گا
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
خواہشوں کے سب پرندے شور سے اڑ جائیں گے
تُو کھڑا خاموش یونہی دیکھتا رہ جائے گا
وار کر سکتا تو ہوں میں اپنے دشمن پر، مگر
سوچتا ہوں پھر درمیاں فرق کیا رہ جائے گا

میں کسی قبر کے نشاں جیسا

تُو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا
میں کسی قبر کے نشاں جیسا
میں نے ہر حال میں کیا ہے شکر
اس نے رکھا مجھے جہاں جیسا
ہو گئی وہ بہن بھی اب رخصت
پیار جس نے دیا تھا ماں جیسا

Friday 13 December 2019

جھوٹ سے سچ سے بھی یاری رکھیں

جھوٹ سے سچ سے بھی یاری رکھیں
آپ تو بس اپنی تقریر جاری رکھیں
ان دنوں آپ سا کوئی نہیں بازار میں
جو بھی چاہیں وہ قیمت ہماری رکھیں
اِن دنوں آپ مالک ہیں بازار کے
جو بھی چاہیں وہ قیمت ہماری رکھیں

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے
تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں
اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے
ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں
بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

Thursday 12 December 2019

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں
غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں
موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا
یاد پر خزاؤں کے حادثے بھی رکھتا ہوں

سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی

سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی
اک تِری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
ورنہ ہر اک نے سنبھلنے کی ہدایت کی تھی

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں
کس کو اب میں سجھائی دیتا ہوں
میری چپ پر نہ کان دھرنا تم
جب نہ بولوں دہائی دیتا ہوں
تجھ سے اب کوئی واسطہ بھی نہیں
پھر بھی تجھ کو صفائی دیتا ہوں

دل کو یوں سیل غم ہجر بہا لے جائے

دل کو یوں سیلِ غمِ ہجر بہا لے جائے
جیسے آندھی کسی پتے کو اڑا لے جائے
گھر سے نکلے ہو تو دیکھو نہ پلٹ کر کہ تمہیں
جانے کس سمت یہ آوارہ ہوا لے جائے
دل سے لٹ کر بھی سخاوت کی تمنا نہ گئی
کوئی اجڑا ہوا آئے تو دعا لے جائے

زخم پھر یاد پرانے آئے

جب بھی ہنسنے کے زمانے آئے
زخم پھر یاد پرانے آئے
بارہا ان کو منایا، تو ہمیں
روٹھ جانے کے بہانے آئے
پھر مجھے ٹوٹ کے چاہا اس نے
پھر بچھڑنے کے زمانے آئے

دل کی نادانیاں نہیں جاتیں

چاک دامانیاں نہیں جاتیں
دل کی نادانیاں نہیں جاتیں
بام و در جل اٹھے چراغوں سے
گھر کی ویرانیاں نہیں جاتیں
اوڑھ لی ہے زمین خود پہ مگر
تن کی عُریانیاں نہیں جاتیں

یہی ہو گا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی

تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی
جیسے رنگ سے خوشبو
بدن سے دوڑ سانسوں کی
گرفتِ شام سے، ناراض سورج کی کرن
ایک دم بچھڑ جائے

Tuesday 10 December 2019

میں نے ہنس ہنس کر ہار مانی ہے

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے
تُو مِری جان داستان تھا کبھی
اب تیرا نام داستانی ہے
سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تیری یاد آزمانی ہے

جانے یہاں ہوں میں یا میں

جانے یہاں ہوں میں یا میں
اپنا گماں ہوں میں یا میں
میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں
جانے کون تھا وہ یا وہ
جانے کہاں ہوں میں یا میں

Monday 9 December 2019

کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں

کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں
وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں
میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت
کشش عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں
وہ اک صدا جو فریبِ صدا سے بھی کم ہے
نہ ڈوب جائے کہیں تند رو ہواؤں میں

زبانوں کا بوسہ

زبانوں کا بوسہ

زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اٹھتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے؟
مِرے ذہن کے ریزے ریزے میں ایک آنکھ سی کھل گئی ہے

تعزیتی قراردادیں

تعزیتی قراردادیں

یارو! بس اتنا کرم کرنا، پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی
مت کہنا جوشِ خطابت میں، دراصل یہ عورت مومن تھی
مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
مت کوشش کرنا اپنا لیں حکام کم ازکم نعش مِری

تم پاؤں کے چھالے مت دیکھو

تم پاؤں کے چھالے مت دیکھو
اب اس کی پُرسش کیا کرنا
کن ویرانوں سے آئے ہیں
کس دشت میں ہم سرگرداں تھے
کیا زخم جگر پر کھائے ہیں 
دو بولوں کی دلجوئی سے

Sunday 8 December 2019

ایسے ماحول میں تو پردہ نشیں ملتے ہیں

ایسے ماحول میں تو پردہ نشیں ملتے ہیں
یہ جگہ ٹھیک نہیں، اور کہیں ملتے ہیں
مولا! خوش بخت فقیروں کو سلامت رکھنا
ان کی چوکھٹ پہ کئی تخت نشیں ملتے ہیں
مصر، بغداد، بلخ، شہرِِ بتاں، تیری گلی
ان مقامات پہ کچھ نقشِ جبیں ملتے ہیں

ایسی جدت کی نہ توفیق خدا دے مجھ کو

ایسی جدت کی نہ توفیق خدا دے مجھ کو
جس کا احساس تغزل ہی بھلا دے مجھ کو
تُو کسی روز مِرے جسم کی حِدت لے جا
اس سے پہلے کہ کوئی آگ لگا دے مجھ کو
روشنی نور اٹھا لائے تِرے چہرے کا
حال احوال تِرا موجِ صبا دے مجھ کو

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا
ہجر انسان کو دھانی نہیں ہونے دیتا
کون مدت سے کھڑا گھور رہا ہے مجھ کو
آئینہ یاد دہانی نہیں ہونے دیتا
اک پری زاد کا آسیب زدہ عشق ہے جو
منجمد جھیل کو پانی نہیں ہونے دیتا

خواب میں اک حسیں دکھائی دیا

خواب میں اک حسیں دکھائی دیا
وہ بھی پردہ نشیں دکھائی دیا
وہ کہیں تھا کہیں دکھائی دیا
میں جہاں تھا وہیں دکھائی دیا
جب تلک تُو نہیں دکھائی دیا
گھر کہیں کا کہیں دکھائی دیا

ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے

ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے
ہم بھی شمعیں بجھا کے بیٹھ گئے
وقت آیا جو تیر کھانے کا
مشورے دور جا کے بیٹھ گئے
عید کے روز ہم پھٹی چادر
پچھلی صف میں بچھا کے بیٹھ گئے

یوں انتقام کے بدلے بھی احترام لیے

خموش رہ کے حریفوں سے انتقام لیے
یوں انتقام کے بدلے بھی احترام لیے
ہم ایسے لوگ تو اپنے بھی کام آ نہ سکے
ہمارے نام سے لوگوں نے کتنے کام لیے
اس ایک مہنگی حسینہ نے سستے شاعروں سے
فقط کلام کیا،۔ اور کئی کلام لیے

Friday 6 December 2019

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے، پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا

نہ شوق وصل نہ رنج فراق رکھتے ہیں

نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر، یہ لوگ تِرا اشتیاق رکھتے ہیں
یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں
ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سے فقیر
نہ عطر و عود، نہ ساز و یراق رکھتے ہیں

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کھلے

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کُھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے
جی میں کیا کیا تھی حسرتِ پرواز
جب رہائی ملی تو پر نہ کھلے
آگے خواہش تھی خون رونے کی
اب یہ مشکل کہ چشمِ تر نہ کھلے

جنہیں زعم کمانداری بہت ہے

جنہیں زعمِ کماں داری بہت ہے
انہیں پر خوف بھی طاری بہت ہے
کچھ آنکھیں بھی ہیں بینائی سے عاری
کچھ آئینہ بھی زنگاری بہت ہے
نہ جانے کب لٹے گا شہرِ مقتل
سنا ہے اب کے تیاری بہت ہے

Wednesday 4 December 2019

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

گیت

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

دل ابھی

دل ابھی

زندگی سے انس ہے
حسن سے لگاؤ ہے
دھڑکنوں میں آج بھی
دل ابھی بجھا نہیں

رنگ بھر رہا ہوں میں
خاکۂ حیات میں

فن جو نادار تک نہیں پہنچا

فن جو نادار تک نہیں پہنچا 
ابھی معیار تک نہیں پہنچا  
حکم سرکار کی پہنچ مت پوچھ 
اہل سرکار تک نہیں پہنچا 
عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں 
قتل اخبار تک نہیں پہنچا 

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں

فروغ کے نام

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں 
رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے 
ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویِٰ حب الوطن 
آج ان کی وجہ سے حبِ وطن رُسوا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر 
زندگی پیاری سہی، لیکن ہمیں مرنا تو ہے

ساحر لدھیانوی

مہکی فضائیں گاتی ہوائیں

فلمی گیت

مہکی فضائیں گاتی ہوائیں
مہکے نظارے سارے کے سارے
تیرے لیے ہیں
تیرے لیے

آ جا کہ تجھ کو بانہوں میں لے لوں 
شانے یہ تیرے زلفیں بکھیروں

مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے

فلمی گیت

مجھ کو آواز دے تُو کہاں ہے
تیرے بِن سُونا سُونا جہاں ہے

پہلے دیوانہ مجھ کو بنایا
پھر محبت سے دامن چھڑایا
آہ دل میں ہے، لب پہ فغاں ہے
تیرے بِن سُونا سُونا جہاں ہے

بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پِیا

فلمی گیت

بڑی مشکل سے ہُوا تیرا میرا ساتھ پِیا
ورنہ تیرے بنا بے رنگ تھے دن رات پیا

آئی ملنے کی گھڑی ترسے ہوئے نین میرے
تیری کیا بات ہے، تُو جب بھی ملے چین ملے
رہے سنگ سنگ تیرے خوشیوں کی بارات پیا
بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا

چلی رے چلی رے چلی رے

فلمی گیت

چلی رے چلی رے چلی رے
بڑی آس لگا کے چلی رے
میں تو دیس پیا کے چلی رے

پیار سے ناتا جوڑا میں نے
اپنوں سے مُکھ موڑ کے
انجانی راہوں پہ نکلی

Sunday 1 December 2019

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں 
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں 
نہ عشق ہی کے اثر ہیں نہ دشمنی کے ہیں 
کہ سارے زخم مِرے دل پہ دوستی کے ہیں 
چراغ، اگرچہ نمائندے روشنی کے ہیں 
مگر یہ ہے کہ یہ آثار تیرگی کے ہیں 

آدم نو کا ترانۂ سفر

آدمِ نو کا ترانۂ سفر

فریب کھاۓ ہیں رنگ و بُو کے سراب کو پوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں، خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں
جو دل کی گہرائیوں میں صبح ظہور آدمؑ سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خدا داد قوتوں کو جگا رہا ہوں
میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
ٹھہر ذرا گرم رو زمانے! کہ میں تیرے ساتھ آ رہا ہوں

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے 
یہ چراغ کی جھوٹی روشنی کہاں جائے 
جو نشیب آئے گا، راستہ دکھائے گا 
موڑ خود بتائے گا، آدمی کہاں جائے 
بڑھ کے دو قدم تُو ہی اس کی پیٹھ ہلکی کر 
یہ تھکا مسافر اے رہزنی! کہاں جائے