Sunday 8 December 2019

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا

اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا
ہجر انسان کو دھانی نہیں ہونے دیتا
کون مدت سے کھڑا گھور رہا ہے مجھ کو
آئینہ یاد دہانی نہیں ہونے دیتا
اک پری زاد کا آسیب زدہ عشق ہے جو
منجمد جھیل کو پانی نہیں ہونے دیتا
روز دھوتا ہوں میں آنکھوں سے بہا کر پانی
میں تِری یاد پرانی نہیں ہونے دیتا
زندہ رکھتی ہے یہ الفاظ کی خوشبو صدیوں
شعر انسان کو فانی نہیں ہونے دیتا
ذہن آمادۂ ہجرت ہے تیرے کوچے سے
دل مگر نقل مکانی نہیں ہونے دیتا

لطیف ساجد

No comments:

Post a Comment