اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا
ہجر انسان کو دھانی نہیں ہونے دیتا
کون مدت سے کھڑا گھور رہا ہے مجھ کو
آئینہ یاد دہانی نہیں ہونے دیتا
اک پری زاد کا آسیب زدہ عشق ہے جو
روز دھوتا ہوں میں آنکھوں سے بہا کر پانی
میں تِری یاد پرانی نہیں ہونے دیتا
زندہ رکھتی ہے یہ الفاظ کی خوشبو صدیوں
شعر انسان کو فانی نہیں ہونے دیتا
ذہن آمادۂ ہجرت ہے تیرے کوچے سے
دل مگر نقل مکانی نہیں ہونے دیتا
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment