آدمِ نو کا ترانۂ سفر
فریب کھاۓ ہیں رنگ و بُو کے سراب کو پوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں، خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں
جو دل کی گہرائیوں میں صبح ظہور آدمؑ سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خدا داد قوتوں کو جگا رہا ہوں
میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
طلسمِ فطرت بھی مسکراتا ہے میری افسوں طرازیوں پر
بہت سے جادو دکھا چکا ہوں، بہت سے جادو جگا رہا ہوں
یہ مہرِ تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment