کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے
اسے دل سے لگا کے فاتحانہ چھوڑ دیں گے
کسی کے دیکھ لینے جاں بہ لب ہونے سے پہلے
پلٹ جائیں گے اور یہ شاخسانہ چھوڑ دیں گے
محبت عمر بھر تم سے کریں گے، اور تم کو
بڑی مشکل سے ملنے پر وہ آمادہ ہوئی ہے
کہو تو باغ تک ہم دوستانہ چھوڑ دیں گے
روایت کے مخالف سمت میں چلتے رہے تو
ہمیں اپنے پرائے آزمانا چھوڑ دیں گے
معید مرزا
No comments:
Post a Comment