واں پہنچ کر جو غش آتا پۓ ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتارئ ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقشِ پۓ مور، ہے طوقِ گردن
جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو
رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
'ہنس کے بولے کہ 'تِرے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ، ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقئ دیدہ اہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
مرزا غالب
No comments:
Post a Comment