یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے
نئی اداسی کے نام ہونے کے واسطے ہے
ہمارے کردار جانتے ہیں کسی بھی پل میں
ہمارا قصہ تمام ہونے کے واسطے ہے
کوئی سماعت رکھی ہوئی ہے مِرے بدن میں
میں خود کو آزاد کرکے خوش ہونا چاہتا تھا
مگر یہ دل جو غلام ہونے کے واسطے ہے
بتا رہا ہے مجھے جوانی کا ٹوٹنا بھی
یہاں پہ سب اختتام ہونے کے واسطے ہے
تمہارے بادل برس کے احساں کریں زمیں پر
مِرا سمندر بھی خام ہونے کے واسطے ہے
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment