Friday 6 December 2019

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کھلے

کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کُھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے
جی میں کیا کیا تھی حسرتِ پرواز
جب رہائی ملی تو پر نہ کھلے
آگے خواہش تھی خون رونے کی
اب یہ مشکل کہ چشمِ تر نہ کھلے
ہو تو ایسی ہو پردہ دارئ زخم
حال دل کا بھی آنکھ پر نہ کھلے
سخت تنہا تھے اس کی بزم میں ہم
رنگِ محفل کو دیکھ کر نہ کھلے
کتنے خوش ہو فرازؔ اسیری پر
اور یہ بندِ غم اگر نہ کھلے؟

احمد فراز

No comments:

Post a Comment